خوابوں کی یہ عمارت پانچ ستونوں پر استوار کی گئی تھی ۔مستقبل کی سرسبز وادی کی طرف راستہ انہی خواب گاہوں سے ہو کر جاتا ہے ۔ دسمبر اپوزیشن کے لیے اہم ہے ۔ریت ذرہ ذرہ مٹھی سے سرک رہی ہے،معاملات ہاتھ سے نکل گئے تو خوابوں کی عمارت دھڑام سے نیچے آگرے گی۔ خوابوں کے محل کو گرنے سے بچانا ہے تو پانچ چیلنجز سے نمٹنا ہو گا۔ ای وی ایم کا چیلنج: جوں جوں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات میں پیش رفت ہو رہی ہے توں توں اپوزیشن کی فکرمندی اور دھمکیاں بڑھ رہی ہیں ۔ ای وی ایم کے ذریعے انتخابات کے معاملے میں تین چار انداز میں پیش رفت ہوئی ہے۔پارلیمنٹ سے قانون سازی ہو جانے کے بعد کچھ دن پہلے الیکشن کمیشن نے حکومت سے ای وی ایم کے ذریعے انتخابات کرانے کے لیے فنڈز اور جگہ مانگی، حکومت نے فنڈز مختص کرتے ہوئے ایک کوآرڈینیشن کمیٹی قائم کر دی۔اُدھر پنجاب میں بھی لوکل باڈیز ایکٹ میں ترمیم منظور کرتے ہوئے ای وی ایم کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ۔ ایسے میں اپوزیشن کے لیے حالات اور معاملات کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے سازگار ہونے سے روکنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے ۔اسی لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات میں جھنجھلاہٹ بھی بڑھ رہی ہے۔رانا ثناء اللہ نے کہہ دیا اگر ای وی ایم کے ذریعے انتخابات ہوئے تو ستتر جیسی تحریک چلے گی۔ لہذا اپوزیشن کے لیے حالات کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حق میں سازگار ہونے سے روکنا اپوزیشن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق:جو لوگ حلقہ جاتی سیاست پر گہری نظر رکھتے اور اعدادوشمار کا جائزہ لینے کے عادی ہیں،جانتے ہیں کہ چالیس کے قریب حلقے ایسے ہیں جہاں اوورسیز ووٹرز نتائج تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اعدادوشمار کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں پچیس کے قریب حلقوں میں ہارنے اور جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کا فرق ایک ہزارسے زیادہ کا نہ تھا اور ان حلقوں میں ہزاروں اوورسیز ووٹرز رجسٹرڈ ہیں ۔ صرف راولپنڈی ڈویژن ہی کی بات کریں تو یہاں ساڑھے چارلاکھ اوورسیز ووٹرز رجسٹرڈ ہیں ۔ لازمی طور پر ووٹنگ کا حق ملنے کے بعد یہ ووٹرز انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوں گے۔ ایک اور مثال کے طور پہ لاہور کے اُس حلقے کا جائزہ لیجیے جہاں سے عمران خان نے سعد رفیق کو چند سو ووٹوں سے شکست دی تھی۔ پھر ضمنی انتخاب ہوا تو ہمایوں اختر دس ہزار ووٹوں سے ہار گئے ۔ اس حلقے سے پینتالیس ہزار اوورسیز ووٹر رجسٹرڈ ہیں ۔ یہ سب حقائق اپوزیشن کے سامنے ہیں ۔ انہیں حالات کی سنگینی کا احساس ہے لیکن راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ لہذا اوورسیز ووٹرز کو ووٹنگ کاحق اپوزیشن کے لیے ایک چیلنج بن کے کھڑا ہے ۔ پی ڈی ایم کے آپسی اختلافات: پی ڈی ایم جس مقصد کے لیے وجود میں لائی گئی تھی وہ حاصل نہ ہو سکا ،اب اس کے لیے وجود برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ شہباز شریف اور مولانا کے راستے جدا اور اہداف مختلف ہیں ۔ ذرائع کے مطابق مولانا جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کے دستبرداری کی پیش کش کر چکے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ تیس نومبر کو لاہور کے جلسے کے لیے اصرار کر رہے تھے ، ایسا جلسہ جو لانگ مارچ میں تبدیل ہو جائے ۔ نومبر کا پہلا پورا ہفتہ یہی اصرار کرتے گزرا لیکن لانگ مارچ تو کیا ،لاہور میں ایک جلسہ تک نہ ہوا۔ ایسے میں پی ڈی ایم کے وجود کو برقرار رکھنا اپوزیشن کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے ۔ وجود برقرار رہ بھی گیا تو اس کی افادیت کو یقینی بنانا اپنے طور پر ایک بڑا چیلنج ہے۔ کم از کم دسمبر میں تو اپوزیشن اس چیلنج سے نمٹتی دکھائی نہیں دیتی۔ رانا شمیم کے بیان حلفی سے فائدے کی چیز نکالنا:مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں نے کچھ عرصے سے رانا شمیم کے بیان حلفی کی بنیاد پر یہ بیانیہ بنا رکھا ہے کہ اپوزیشن کو ہرانے کے لیے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کی گئی جس کے لیے اعلی عدلیہ کو بھی استعمال کیا گیا۔ رانا شمیم کے بیان حلفی والی کہانی کے منصوبہ سازوں سے سکرپٹ میں کئی جھول رہ گئے جو اب سوال بن کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر اور باہر رانا شمیم کے سامنے کھڑے ہیں ۔ ابھی تک کے الٹے سیدھے جوابوں سے وہ اپنا راستہ مزید دشوار بنا رہے ہیں۔ ابھی تک ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ ساز نہ صرف یہ کہ رانا شمیم کے بیان حلفی سے کچھ حاصل نہیں کر پائے الٹا انہیں اپنے دعوے کو درست ثابت کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ دسمبر میں ہی دو تین سماعتوں کے بعد ہی اندازہ ہو جائے گا کہ اپوزیشن اس بیان حلفی سے اپنی حمایت میں کیا کچھ نکال پائی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ن لیگ کی ایک اور لائیبیلٹی بن کر سامنے آئے گی۔ مریم نواز کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چلنے والے کیسز:اسلام آباد میں مریم نواز کی جو اپیلیں زیر سماعت ہیں ان کا تعلق صرف مریم نواز یا نواز شریف کے ساتھ نہیں ہے ۔ بلکہ ان کا تعلق پی ڈی ایم کے مستقبل کے ساتھ ہے۔ مریم نواز کی جیت کا فائدہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو ہو گااور اگر مریم نواز جیل گئیں تو ثابت ہو جائے گا کہ مختلف طرح کی آڈیوزاور بیان حلفی لانے کے باوجود ان کا موقف غلط تھا۔ ایک خاص حکمت عملی کے تحت مریم نواز اور ان کے وکلا ء نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیوزاور رانا شمیم کا بیان حلفی اپنے کیس کے حق میں عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا۔ حکومتی جماعت اور مخالفین کے بار بار کے اصرار کے بعد بھی ان الزامات کوعدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ گویا مریم نواز کے کیس کا فیصلہ سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں ہی ہونا ہے۔ اگر مریم نواز سرخرو نہ ہوئیں تو اس کا اثرپوری ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کی سیاست پر پڑنا لازم ہے۔ اب دیکھیے اپوزیشن آنے والے دنوں سے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے ۔ دیکھئے اپوزیشن اپنے خوابوں کے نگر کو بچا پاتی ہے یا اس مشن میں ناکام رہتی ہے۔