چائنا-افریقہ بزنس کونسل کی رپورٹ کے مطابق، چین گزشتہ 13 سالوں سے افریقہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے اور 2021 میں افریقہ کا چوتھا سب سے بڑا دو طرفہ سرمایہ کار تھا۔ افریقہ کی ترقیاتی حکمت عملی، جیسے کہ افریقی یونین (AU) کا ایجنڈا 2063 اور افریقی کانٹینینٹل فری ٹریڈ ایریا۔ بی آر آئی اور اے ایف سی ایف ٹی اے کا گہرا تعاون افریقہ کو ایک مزید مربوط براعظم بنانے کے ساتھ ساتھ افریقہ کو عالمی سپلائی چین(Supply Chain) سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ چین کو افریقہ کی ضرورت کیوں ہے؟ چین نے 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے طور پر ابھرنے کے بعد ہی افریقی ممالک سے رابطہ کرنا شروع کیا جبکہ امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت والی حکومت کو جائز حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ جمہوریہ چین کی حمایت کی اور وہاں چیانگ کائی شیک کی قیادت میں قوم پرستوں کی حکومت کو تسلیم کیا۔ اگرچہ قوم پرست چین کی سرزمین سے فرار ہوکر ایک چھوٹے سے جزیرے تک محدود ہو گئے جو آج کل تائیوان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2013 میں بیلٹ اینڈ روڈ کا باضابطہ اعلان ہونے سے پہلے ہی، چین افریقی ممالک کے شہری ترقی کے شعبے میں بڑی پیش رفت کر رہا تھا۔ چین نے افریقہ کے لیے بڑے پیمانے پر لابنگ شروع کر دی، خاص طور پر غیرجانبدار ملکوں کی تحریک کے آغاز کے بعد سے عوامی جمہوریہ چین کو ایک وقت میں ایک ملک تسلیم کرایا۔ اگرچہ چین نے پورے براعظم میں ریلوے لائنیں، سڑکیں، ہسپتال، یونیورسٹیاں اور اسٹیڈیم بنانا شروع کیے لیکن افریقہ کے ساتھ چین کی ابتدائی شراکت داری کی دیگر وجوہات بھی تھیں۔ نوآبادیاتی طاقتیں بڑی حد تک ختم ہو چکی تھیں یا براعظم کو چھوڑنے کے لیے تیار تھیں اور براعظم میں اب بھی قدرتی وسائل کا وہی ذخیرہ تھا جو ہمیشہ رہا ہے۔ چین نے طاقت کے اِس خلا کو پرکرنے میں میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا جبکہ سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں سرمایہ کاری کی جس کی بدولت بیجنگ براعظم اَفریقہ میں آج اعلیٰ مقام اور اثرورسوخ کا حامل ہے۔ دوسری طرف اَمریکہ سابق سوویت یونین کے خلاف جاری سرد جنگ میں اس وقت مصروف تھا جو 1947 میں ٹرومین ڈکٹرائن کے اِعلامیہ کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ یورپی اَقوام نے افریقی ممالک پر اَپنے تسلط کے دور میں افریقہ میں بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا، جس کا مقصد مقامی اقتصادی ترقی کے لیے بھی تھا، لیکن بنیادی طور پر ان منصوبوں کو قدرتی وسائل کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔ افریقی امور کے ماہرین کے مطابق "نیروبی-ممباسا اور ادیس ابابا-جبوتی ریلوے دونوں کے پیشرو کو اس طرح کی درجہ بندی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ دونوں منصوبے اندرون ملک کے معدنی ذخائر کے علاقوں کو بحر ہند کی بڑی بندرگاہوں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے ہونے والی اِقتصادی ترقی جس کا چین تجربہ کر چکا ہے، افریقی ممالک اِس کی تلاش میں ہیں اور اِس سلسلے میں بہت سارے افریقی رہنما چین کی طرف دیکھ رہے ہیں تاکہ وہ اپنے تجربات کو اپنے ممالک تک پہنچا سکیں۔ افریقہ کے بنیادی ڈھانچے کے بڑے اور مرکزی منصوبے — بشمول نائیجیریا میں 12 بلین ڈالر کی کوسٹل ریلوے، 4.5 بلین ڈالر کی لاگت کا ادیس ابابا – جبوتی ریلوے، اور 11 بلین ڈالر کا میگا پورٹ اور تنزانیہ کے ٹاؤن باگامویو میں اقتصادی زون چینی شراکت داری کے ذریعے تیار کیے جا رہے ہیں۔ چین کو اَب افریقہ کی ضرورت اِس وجہ سے بھی ہے کہ چین کا ایک تہائی تیل افریقہ سے آتا ہے، جبکہ ملک کی ضرورت کی 20 فیصد کپاس بھی۔ افریقہ کے پاس دنیا کے تقریباً نصف مینگنیج کا ذخیرہ ہے، جو سٹیل کی پیداوار کے لیے ایک ضروری جزو ہے، اور جمہوریہ کانگو کے پاس اپنے طور پر کرہ ارض کے کوبالٹ کا نصف حصہ پایا جاتا ہے۔ افریقہ میں بھی کافی مقدار میں کولٹن موجود ہے، جس کی الیکٹرانکس کے لیے اَہم ضرورت ہوتی ہے، اِسی طرح کاربونیٹائٹس، جو نایاب زمینوں کا بنیادی ذریعہ ہے، کی پیداوار کا آدھا حصہ دنیا کو اَفریقہ سے فراہم ہوتا ہے۔ تاہم، افریقہ میں چین کے تجارتی عزائم کو اس کے اپنے جیوسٹریٹیجک عزائم سے الگ کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اور، بہت سے معاملات میں، یہ دونوں لامحالہ اوورلیپ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بندرگاہوں کی تعمیر اہم فوائد پہنچاتی ہے خصوصی طور پر جب بات انٹیلی جنس تک رسائی، علاقائی رسائی کے مقامات، بحریہ کی ڈاکنگ، تجارتی علاقوں تک رسائی، اور سمندری چوکی پوائنٹس کی ہو۔ افریقہ میں چین کی فوجی موجودگی اس کی بڑھتی ہوئی اقتصادی موجودگی کے ساتھ ساتھ بڑھی ہے۔ اِس طرح کے خدشات پہلے ہی ہارن آف افریقہ کے ساتھ جبوتی میں چین کے فوجی اڈے سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جب انسانی حقوق کی بات آتی ہے تو افریقی ملکوں کا چین نواز موقف براعظم کو مغرب کے مخالف صف میں کھڑا کررہا ہے۔ زیادہ تر افریقی حکومتیں سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے ساتھ اِمتیازی سلوک کرنے کی بیجنگ کی پالیسی پر مغربی ممالک کی تنقید پر خاموش ہیں جبکہ اَمریکہ اور مغربی ممالک چین کی اِس پالیسی کو بنیادی اِنسانی حقوق کی پامالی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ قیاس یہی کیا جاسکتا ہے کہ افریقی پالیسی سازوں کے لیے بیجنگ کی مخالفت نہ کرنا انکی خارجہ پالیسی کی زیادہ اہم ترجیح ہے۔ اَفریقی ملکوں کی چین کے ساتھ شراکت داری کے پس پشت عام تصور یہ بھی ہے کہ بہت سے افریقی رہنما چینی سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کے حامی ہیں کیونکہ مغرب کے ساتھ ان کے ماضی کے تجربات کے برعکس، چین ان کے ساتھ مساوی برتاؤ کرتا ہے اور چین ان جذبات کا سیاسی استعمال کر رہا ہے۔