چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے 15 دسمبر کو ورچوئل بات چیت کی ہے کیونکہ دونوں رہنماؤں کو الگ الگ محاذوں پر امریکہ سمیت مغربی ممالک کے دباؤ کا سامنا ہے۔ 2013ء سے دونوں رہنماؤں کے مابین 37 ویں جبکہ دوسری ورچوئل ملاقات تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے 2019 ء میں صدر پیوٹن کو اپنا "بہترین دوست" قرار دیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو سراہتے ہوئے انہیں'' 21 ویں صدی میں بین ریاستی تعاون کی ایک مناسب مثال" قرار دیا ہے۔ انہوں نے توانائی، ہائی ٹیک کے شعبے میں تعاون،مشترکہ منصوبوں اور تجارت پر بھی بات چیت کی۔ روس اور چین حالیہ ہفتوں میں مغربی تنقید کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ امریکہ سمیت نیٹو ممالک روسی فوجی اقدام پر تنقید کرتے ہیں اور اسے یوکرین کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب امریکا نے چین کی اوغور مسلم اقلیت کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بیجنگ 2022 ء کے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ چین اور روس کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات کے بین الاقوامی سیاست میں خاص طور پر یورپ میں ہونیوالی حالیہ پیش رفت کے پس منظر میں اہم مضمرات ہیں۔ روس اور چین نے نہ صرف فوجی میدان میں تعاون بڑھایا ہے بلکہ اقتصادی، سرمایہ کاری اور تجارتی محاذوں پر باہمی تعاون کو مزید مضبوط کیا ہے ۔ یہ سربراہی اجلاس ماسکو کے یوکرین کے کریمیا کے الحاق کے برسوں بعد منعقد ہوا ہے، جس کے نتیجے میں روس اور اس کی مغربی طاقتوں کے درمیان شدید دراڑ پڑ گئی اور اس کے نتیجے میں روس کا مشرق میں اپنے پڑوسی کی طرف جھکاؤ پیدا ہوا۔ قابل ذکرعنصر یہ بھی ہے کہ یہ ملاقات روس امریکہ ویڈیو کال کے آٹھ دن بعد ہوئی ہے، جس میں امریکی صدر جو بائیڈن نے پیوٹن کو یوکرین پر حملہ کرنے کے خلاف خبردار کیا تھا اور اس صورت میں روس کو تکلیف دہ پابندیوں کا سامنا کرنے کی تنبیہہ کی تھی اور شدید اقتصادی نقصان سے ڈرایا تھا ۔ جبکہ صدر پیوٹن نے بائیڈن کو بتایا کہ روس کو مغرب سے قانونی طور پر پابند حفاظتی ضمانتوں کی ضرورت ہے۔ صدر شی اور پیوٹن اس ورچوئل میٹنگ سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟ اوراس ورچوئل میٹنگ کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں؟ اِس کالم میں اِن سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جائیگی۔ چین اور روس کے درمیان باہمی گہرے روابط تمام شعبوں میں ثمر آور ہونے لگے ہیں۔2021 ء کی پہلی تین سہ ماہیوں میں دوطرفہ تجارت پہلی بار 100 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، اور سال بھر کی باہمی تجارت کے حجم کا ایک نیا ریکارڈ بننے کی امید ہے۔ چین اور روس کے درمیان سائنسی اور تکنیکی اختراع کا سال ایک بڑی کامیابی رہا ہے۔ یوریشین اکنامک یونین کیساتھ بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کو ہم آہنگ کرنے میں ہموار پیش رفت ہو رہی ہے۔ عسکری شعبے میں دونوں ممالک تعاون بڑھانے میں مصروف ہیں۔ نومبر کے آخر میں، روس اور چین نے فوجی تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے ایک روڈ میپ پر دستخط کیے، جس میں انہوں نے مشترکہ فوجی مشقیں اور گشت بڑھانے کا عزم کیا۔ مشترکہ بیان کے مطابق، دونوں ممالک نے ’’روس اور چین کی طرف سے تزویراتی فوجی مشقوں اور مشترکہ گشت میں تیزی لانے میں مشترکہ دلچسپی کا اظہار کیا‘‘۔ اِس سال نومبر میں یو ایس گلوبل تھنڈر اسٹریٹجک فورس مشق کے دوران، 10 اسٹریٹجک بمبار طیاروں نے روس کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے فرضی منظر نامے پر عملاً بیک وقت مغربی اور مشرقی سمتوں سے مشق کی اور روسی سرحد کے 20 کلومیٹر کے قریب آئے۔ اسی طرح، بحیرہ اوخوتسک پر امریکی بمبار طیاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا جہاں انہوں نے کروز میزائل لانچ کرنے کے پوائنٹس تک پہنچنے کی مشق کی جو روس اور چین دونوں کے لیے خطرہ کی علامت تھی اور جِس نے ماسکو اور بیجنگ دونوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ۔ جِس کے نتیجے میں روس اور چین نے 2021-2025 کے لیے فوجی تعاون کے منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔ دو روسی اور دو چینی سٹریٹیجک بمبار طیاروں نے بھی بحیرہ جاپان اور بحیرہ مشرقی چین پر مشترکہ گشت کیا جبکہ روسی فوجیوں نے چینی فوجیوں کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لیا اور یہ پہلا موقع تھا کہ روسی فوجیوں نے چینی سرزمین پر مشقوں میں حصہ لیا۔ روس نے 2014 ء میں یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا پر ماسکو کے قبضہ،روسی ہیکنگ حملوں کے الزامات،امریکی صدارتی انتخابات میں روس پر مداخلت کے الزامات اور دیگر تنازعات کی وجہ سے امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے پس منظر میں چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ ماضی میں روس اور چین نے فوجی اتحاد قائم کرنے کے امکان کو مسترد کر دیا تھا ، لیکن پیوٹن نے کہا کہ اس طرح کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔ تاہم حالیہ ورچوئل میٹنگ کے دوران دونوں فریقوں نے باضابطہ طور پر اچھی ہمسائیگی اور دوستانہ تعاون کے معاہدے کی تجدید کا اعلان کیا ہے اور اسے نئے دور میں مزید متعلقہ بنایا ہے۔ بیجنگ 2022ء کے سرمائی اولمپکس میں شرکت کے لیے صدر پیوٹن کے اعلان شدہ چین کے دورے کو امریکی صدر کے بیجنگ اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کے اعلان کے جوابی اقدام کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جبکہ پیوٹن نے "کھیلوں کو سیاسی بنانے کی کوششوں کے لیے روس کی مسلسل مخالفت" کی تصدیق کی ہے۔ روس نے بھی تائیوان کے ایشو پر چینی حکومت کے جائز موقف کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے اور مسلہ تائیوان کو جواز بناتے ہوئے چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کسی بھی طاقت کے اقدام کی مخالفت کی ہے اوQUAD" کا ذکر کیے بغیر، ایشیا پیسیفک کے خطے میں کسی بھی قسم کے ’’چھوٹے گروپ‘‘ کی تشکیل کیلئے کسی بھی قسم کے اقدام کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ چین اور روس کے درمیان بڑھتا ہوا تجارتی حجم، انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے دباؤ کا سامنا، بین الاقوامی سیاست میں مشترکہ جغرافیائی اور سیاسی مفادات اور بڑھتا ہوا فوجی تعاون، چین اور روس کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں گہرائی کی نشاندہی کرتا ہے جو امریکی بالادستی کے خلاف متبادل کے طور پر ملٹی پولر (multi-polar) ورلڈ کا نقشہ پیش کرتا ہے۔