وفاقی کابینہ نے 172افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ کابینہ کی ذیلی جائزہ کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے ایک تو یہ تاثر پختہ ہوا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کے لئے ریاست پُرعزم ہے‘ کسی قسم کی کمزوری دکھانے پر تیار نہیں۔ دوسرے نظرثانی کا عمل سترہ جنوری تک جاری رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان میں دیرینہ روائت یہ رہی کہ جو معاملہ کمیٹی کے سپرد ہو جائے وہ داخل دفتر سمجھو۔ کمیٹی کے سپرد معاملہ‘ پر غور اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک یہ عوام کی یادداشت سے محو نہ ہو جائے پاکستانی عوام کے بارے میں ہمارے دانائوں کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ وہ کمزور یادداشت کے مالک ہیں۔ خواجہ آصف نے اسی بنا پر میاں نواز شریف کو تسلی دی تھی کہ فکر نہ کریں عوام جلد ہی پانامہ سکینڈل کو بھول جائیں گے۔ یہ شریف خاندان کی بدقسمتی ہے کہ پانامہ سکینڈل اور سانحہ ماڈل ٹائون کو عوام بھول نہ پائے‘ نتیجہ معلوم۔ کرپشن ہر ملک‘ ہر معاشرہ میں ہوئی کہیں کم‘ کہیں زیادہ۔ منڈی کی معیشت نے کرپشن کے دروازے چوپٹ کھول دیے ہیں اور سرمایہ لوگوں کا دین‘ ایمان بنتا جا رہا ہے۔ یہی نقطہ نظر یار لوگوں کا جمہوریت کے بارے میں ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن خوب پھلتی پھولتی ہے۔ کثیر سرمائے کے بغیر انتخابی عمل پروان چڑھ نہیں سکتا۔ امریکہ اور دوسرے ممالک میں اسی بنا پر سیاسی جماعتوں کو اپنے حامیوں سے مقررہ حدود میں چندہ جمع کرنے کی اجازت ہے لیکن سیاستدان اور حکمران قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنے لگیں‘ یہ صرف ہماری اور ہمارے جمہوریت پسندوں کی انفرادیت ہے۔ بے مثل و بے نظیر خصوصیت۔ بھارت میں کئی جرائم پیشہ عناصر دولت‘ برادری‘ دھڑے اور نسلی‘ لسانی مذہبی تعصب کو بروئے کار لا کر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پہنچ چکے اور کرپشن کے قطب مینار اعلیٰ مناصب پر فائز ہوئے ۔تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے للیتا اور بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد کی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہیں لیکن جب قانون کے شکنجے میں پھنسے تو منصب کام آیا نہ پیسہ۔کسی نے یہ بھی عذر پیش نہیں کیا کہ دو صوبوں کے مقبول حکمران عدلیہ اور پولیس کو نہیں عوام کو جوابدہ ہیں‘ پاکستان کی حکمران سیاسی اشرافیہ کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے لوٹ مار کے فن کو جدّت عطا کی۔ جے للیتا کی کابینہ کرپٹ تھی اور لالو پرشاد یادیو نے بعض بیورو کریٹس کا سہارا لیا مگر ہماری حکمران اشرافیہ نے پارلیمنٹ ‘ کابینہ‘ بیورو کریسی‘ مالیاتی اداروں اور تفتیشی ایجنسیوں کو ہائی جیک کیا اور سرکاری وسائل و اختیارات کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے لئے وقف کر دیا۔ پانامہ سکینڈل اور اومنی گروپ معاملے پر بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹیں ہوشربا حقائق پر مبنی ہیں کس طرح لوٹ مار اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کے لئے سرکاری محکمے‘ مالیاتی ادارے اور قومی وسائل استعمال ہوئے۔ سارا کچا چھٹا سامنے آنے کے بعد نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے ہوئے اب آصف علی زرداری کی باری ہے۔ زرداری خاندان‘ اومنی اور بحریہ ٹائون کے گٹھ جوڑ پر مبنی جو کہانی جے آئی ٹی رپورٹ میں بیان ہوئی وہ پڑھ کر شریف خاندان واقعی معصوم لگتا ہے نواز شریف کی کابینہ کا ایک آدھ ہیرا ہی اس کاروبار کا حصہ ہو گا۔ مثلاً اسحق ڈار وغیرہ۔ سندھ بنک کی طرح کوئی مالیاتی ادارہ بھی اس نیٹ ورک میں شامل نہ تھا‘ اداروں کے سربراہ البتہ مستثنیٰ ہیں۔ یہ گویا باڑ کھیت کو اجاڑ رہی تھی۔ اس انداز میں اپنے ملک اور قوم کو کسی حکمران نے نہیں لوٹا ہو گا ۔انگریز بدیسی حکمران تھے ہندوستان کا بہت زیادہ سرمایہ انہوں نے انگلینڈ منتقل کیا مگر اس ندیدے پن کا مظاہرہ شاید انگریز دور میں نہ ہوا ہو۔ سنگین اور مکروہ جرائم سامنے آنے کے بعد عدلیہ‘ وفاقی حکومت اور ریاست خاموش رہے‘درگزر یا نظر انداز کرے تو یہ سب سے بڑا جرم ہو گا۔ تفتیش اور احتساب سے بچنے کے لئے اسحق ڈار ‘ وزیر خزانہ کے طور پر ملک سے فرار ہوئے‘ بیرون ملک روانگی کے لئے شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم کا طیارہ فراہم کیا۔ میاں شہبازشریف کے داماد علی عمران اور صاحبزادے سلمان شہباز دوران تفتیش ملک سے باہر چلے گئے۔ حسین حقانی اپنی وکیل عاصمہ جیلانی کی طرف سے اس یقین دہانی پر ملک سے باہر گئے کہ وہ عدالت کے بلانے پرواپس آ جائیں گے مگر اب عدالت عظمیٰ کو پلا نہیں پکڑا رہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ‘ زرداری گروپ اور بحریہ ٹائون کے سہولت کار ہیں ۔زیادہ درست الفاظ میں ادنیٰ کارندے۔ جے آئی ٹی اور ایف آئی اے اگر آصف علی زرداری‘ فریال تالپور اور ملک ریاض کے ساتھ وزیر اعلیٰ سندھ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش نہ کرتی تو کیا کرتی۔ وفاقی حکومت اس سفارش سے انحراف کی مرتکب ہو تو کیوں؟ کیا ریاست اور حکومت اتنی بڑی قومی ڈکیتی پر خاموش رہ سکتی ہے۔ احتساب کے عمل میں رکاوٹ ڈال کر اپنے ووٹروں‘ حامیوں اور آئندہ نسلوں کے سامنے شرمندہ ہونے کی متحمل ہے؟ جواب نہیں میں ہے تو پھر صرف معاملہ ای سی ایل تک محدود نہیں رہ سکتا۔ مجرموں کی شراکت دار‘ سہولت کار اور منی لانڈرنگ کے کاروبار میں ملوث سندھ حکومت کے بارے میں جلد یا بدیر کوئی فیصلہ کرنا پڑیگا۔ آئین میں ایمرجنسی‘ گورنر راج اور تحریک عدم اعتماد کی شقیں فقط زیب داستان کے لئے نہیں‘ بوقت ضرورت استعمال کے لئے ہیں۔ بھارت میں کئی ریاستیں گورنر راج کا مزہ چکھ چکی ہیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں گورنر راج کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد صدر راج نافذ ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے مفاسد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس کا نفاد مشکل کر دیا ہے تاہم جہاں چاہ وہاں راہ۔ گورنر راج اور تحریک عدم اعتماد میں سے کسی ایک آئینی طریقہ کار کے ذریعے لٹیرا راج ختم کرنا پڑیگا تاکہ کسی رکاوٹ کے بغیر احتساب کا عمل مکمل ہو اور یہ تاثر پختہ نہ ہو کہ احتساب کی چکی صرف پنجاب کا گیہوں پیس رہی ہے ۔حکمران اشرافیہ کی لوٹ مار پاکستان کی نئی نسل کو جدوجہد‘محنت‘ ایمانداری اور رزق حلال کے تصور سے دور کر رہی ہے اور امانت و دیانت کے اوصاف قصۂ پارینہ بنتے جا رہے ہیں۔ جس ملک کے سیاسی کارکنوں کا رول ماڈل آصف علی زرداری ہو اور آکسفورڈ کا پڑھا نوجوان بلاول اپنا سیاسی مستقبل ‘ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا سیاسی ورثہ دائو پر لگا کر لٹیروں کی بارات کا دفاع کررہا ہو ‘وہاں اگر ریاست سیاسی مصلحتوں کی بنا پر بلا امتیاز احتساب سے دستکش ہو جائے اور حکومت دبائو کے تحت مجرموں کے فرار کا راستہ کھول دے تو پاکستان اور اس کے مظلوم عوام کہاں جائیں‘ کس سے فریاد کریں؟ عمران خان کی شہرت ہر قیمت پر کچھ کر گزرنے والے انسان کی ہے۔ سیسلین مافیا اور انڈرورلڈ سے قوم کو چھٹکارا دلانے کا کارخیر قدرت نے اگر عمران خان کی قسمت میں لکھا ہے تو ع یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے منی لانڈرنگ کے اس ہوشربا سکینڈل کا پل صراط بھی وہ اس استقامت اور دانشمندی سے عبور کریں جس طرح وہ پانامہ پل سے گزرے‘ سرخرو ‘ سربلند اور کامران۔