معروف ادیب اور خانوادۂ نظامیہ کے چشم و چراغ خواجہ حسن نظامی نے آج سے تقریباً ایک صدی قبل مچھر کے حُلیے اور حِیلے کے تذکرے میں لکھا تھا: ’’یہ بِھنبھناتا ہوا ننھا سا پرندہ آپ کو بہت ستاتا ہے۔ رات کی نیند حرام کر دی ہے۔ ہر روز اس کے مقابلے کے لیے مہمیں تیار ہوتی ہیں، جنگ کے نقشے بنائے جاتے ہیں مگر مچھروں کے جرنیل کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ شکست پر شکست ہوئی چلی جاتی ہے اور مچھروں کا لشکر بڑھا چلا جاتا ہے… طاعون نے گڑ بڑ مچائی تو انسان نے کہا کہ طاعون مچھر اور پِسّو کے ذریعے سے پھیلتا ہے۔ ملیریا پھیلا تو اس کا الزام بھی مچھر پر عائد ہوا۔اِس سرے سے اُس سرے تک کالے گورے آدمی غُل مچانے لگے کہ مچھروں کو مٹا دو،مچھروں کو کچل ڈالو،مچھروں کو تہس نہس کر دو اور ایسی تدبیریں نکالو،جس سے مچھروں کی نسل ہی منقطع ہو جائے… اتنے بڑے ڈیل ڈول کا انسان، ذرا سے بُھنگے پر قابو نہیں پا سکتا۔ طرح طرح کے مسالے بھی بناتا ہے کہ ان کی بُو سے مچھر بھاگ جائیں لیکن مچھر اپنی یورش سے باز نہیں آتے… آتے ہیں اور نعرے لگاتے ہوئے آتے ہیں۔ بے چارہ آدم زاد حیران رہ جاتا ہے اور کسی طرح ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘ دوستو! ایک صدی بعد بھی ہمیں اسی مچھر سے مقابلہ درپیش ہے، جس کا ماڈرن نام ہم نے ڈینگی رکھ لیا ہے۔ وہ تو کرونا کی دہشت نے ہماری توجہ کھینچ لی، وگرنہ ایک زمانے میں تو ہم نے ڈینگی کو اتنا سر پہ سوار کر لیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں غالب، میر، شیکسپیئر، کے ساتھ ساتھ یہ بھُنگا بھی نصاب میں شامل تھا۔ ہر سکول کالج کی سب سے نمایاں جگہ پہ ڈینگی مارکہ اشیا دیکھ کے ہمیں تو یہی لگتا کہ چھوٹے بچوں کو صبح صبح یہقاعدہ پڑھایا جاتا ہو گا: الف: انار… ب: بخار … پ: پپیتا … کُجھ وی نہ کیتا… اس سے ذرا بڑے بچے پڑھ رہے ہوں گے: ڈینگی کا بچہ… کھاتا تھا پلیٹ لَیٹ…پیتا تھا خون… مارچ ہو کہ جون… جب بھی اڑایا…واپس ہی آیا… ڈینگی کا بچہ انگریزی سکولوں کے بچے یاد کر رہے ہوں گے: ڈینگی ڈینگی مُضر بخار… ہائو آئی وَنڈر وَٹ یُو آر نصاب میں، ڈینگی کا کاٹا پانی بھی نہیں مانگتا، مچھر کا کلیجہ ہونا، کوئی پپیتا فروگذاشت نہ کرنا، ڈینگیں مارنا ، جیسے محاورات شامل ہو چکے ہوں گے۔ جب سے کرونا کا ہوّا کچھ ماند پڑا ہے ڈینگی میاںنے پھر سے سر اٹھا لیا ہے۔ ماہرِ امراضِ جدیدیہ حکیم جی بھی اِن دنوں اپنی اس غزل کے اشعار گنگناتے دیکھے گئے ہیں: جو گھر کی چھت پر سو گیا ہے اس کو سمجھو کہ ڈینگی ہو گیا ہے کیسا ہُشیار تھا مِرا دادا جو گھر میں پپیتا بو گیا ہے فرماتے ہیں:ہماری بے احتیاطی کا یہی عالم رہا تو کچھ عرصے بعد یہ ڈینگی، نصاب کے ساتھ ساتھ فیشن میں بھی شامل ہو چکا ہو گا۔ لاہور کے فلمی سٹوڈیوز میں : ڈینگی دا کھڑاک … ڈینگی تے گُجر… ڈینگی آیا ، تم نہیں آئے… ڈینگی دے نخرے … پپیتا میرے ویر دا… نام کی فلمیں بن رہی ہوں گی۔ فلموں میں اس طرح کی سچوایشنز دیکھنے میں آئیں گی کہ فلم کا ہیرو ڈینگی بخار میں مبتلا ہے جو ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں لیٹا ہے۔ اس کے جسم پر کپکپی طاری ہے۔ سرہانے والے سٹینڈ پہ خونی ڈرپ قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے … سائیڈ ہیروئن جو اتفاق سے ہسپتال میں نرس ہے، اچانک ڈرپ کی پھرکی بند کرنے کی طرف لپکتی ہے کہ دوسری طرف فلم کی خوبرو ہیروئن کو خبر ہو جاتی ہے۔ وہ فٹا فٹ سولہ سنگھار کر کے، سرخ لاچا زیب تن کیے، گھر والوںسے نظر بچا کے سرسوں کے کھیت میں پہنچتی ہے اور نہایت رقت انگیز انداز میں گانا شروع کرتی ہے: حُسن حاضر ہے محبت کی سزا پانے کو کوئی ’مچھر‘ سے نہ مارے مِرے دیوانے کو دوسری فلم میں یہ سین دیکھنے میں آئے گا کہ ہیرو، شادی کیلئے ہیروئن کے باپ کی شرائط پوری کرنے کی خاطر لاہور گیا ہوا ہے۔ کاہنہ کاچھا میں ہیروئن کو اچانک اس کی سہیلیاں خبر دیتی ہیں: نی اَڑیے! جہاں تیرا ماہی نوکری کرنے گیا ہوا ہے وہاں تو ہر طرف ڈینگی نے تباہی مچائی ہے۔ ہیروئن پہلے تو اپنے بڑی بڑی مونچھوں والے باپ کی مِنتیں کریگی، اسے پیروں فقیروں کے واسطے دیگی کہ وہ بشیرے کو واپس بلا لے لیکن جب وہ ظالم کسی طرح مان کر نہیں دیگا تو وہ اداس ہو کر چاندنی رات میں چھت پر چڑھ کر آنکھوں میں آنسو بھر کے گائے گی: ڈینگی والیا موڑ مہار وے وے ے ے ے ڈینگی والیا موڑ مہار وے غرض یہ کہ کچھ ہی عرصے بعد ملک کے چپے چپے سے اس طرح کے گانوں کی گونج سنائی دینے لگے گی: یہ ڈینگی ڈینگی کیا ہے؟ یہ ڈینگی ڈینگی…؟ ڈینگی دے نخرے سوہنے لگدے ، مینوں… توں ڈینگی ڈینگی کرنی ایں، کیوں ڈینگی کولوں ڈرنی ایں!! پپیتا جان کر تم تو میرا دل توڑ جاتی ہو اُردو زبان کے نامور شاعر ناصر کاظمی جو رات رات بھر لاہور کی سڑکوں پر پھرتے رہتے تھے،اگر آج زندہ ہوتے تو رومانوی اداسی میں مبتلا ہونے کی بجائے،ڈینگی فیور کی فکر کرتے اور موجودہ افراتفری کے دور میں اُن کے قلم سے اس طرح کے شعر برآمد ہوتے: کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں آئے ہیں اس گلی میں تو ’مچھر‘ ہی لے چلیں اور فرازؔ مرحوم برملا کہہ اُٹھتے: ان ’مچھروں‘ سے دوستی اچھی نہیں فرازؔ ’گندا‘ تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر یہ بھاشن سنتے سنتے اچانک میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں کیادیکھتا ہوں… ڈینگی بے تکلفی سے کرونا کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کے کہہ رہا تھا: ’’یار تمھیں کیا بتائوں دنیا میں بے شمار علاقوں کی سیر کی ہے، پر لہور لہور ای اے۔ لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں: جِنّے لہور نئیں ویکھیا اوہ جَمیا ای نئیں!‘‘