بدصورتی شہر لاہور کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اس بے ہنگم ، بے سمت اور بے چہرہ بدصورتی کا ذکر کہاں سے شروع کروں کہ پرانا لاہور سرگوشیوں میں میرے کان میں کہہ رہا ہے ’’کبھی ہم خوبصورت تھے‘‘۔ پہلے میں لاہوری ہونے پر نازاں ہوا کرتا تھا مگر اب اپنے ہی شہر میں خود کو اجنبی سا محسوس کرتاہوں ۔ اجنبی چہرے ، اجنبی ایکسپریشن ، اجنبی لوگ اور باڈی لینگوئج۔ سڑک پر چلے جائو تو گاڑیاں ہی گاڑیاں اور دھواں ہی دھواں ۔دنیا کہتی ہے یہ آلودہ ترین شہر ہے مگر میں سوچتاہوں کہ کیا یہ آلودگی صرف فضا کی ہے ؟ ماحول کی ہے ؟ شاید نہیں۔ یہاں آلودگیاں ہی آلودگیاں ہیں۔ سوچوں کی، فکروں کی، رویوں کی ، سماج کی۔ پاکستان کا میں کیا ذکر کروں آئیے لاہور کا ذکر ہی کرتے ہیں ۔ یہ بیچارہ زخم زخم آلودہ ہے ، کراہ رہا ہے ، اس کا دم گھٹ رہا ہے ۔ مجھے تو لگتا ہے یہ مر چکا ہے۔ یہ کبھی اقبال کو دیکھا کرتا تھا اور کبھی منٹو کو اور کبھی احمد راہی اور اے حمید کو ۔ صوفی تبسم دیو سماج روڈ پر رہتے تھے ۔ ناصر کاظمی کرشن نگر میں اور ایک پاک ٹی ہائوس بھی تھا ۔ سٹوڈیوز بھی تھے ، ایکٹرز بھی اور رتن اور رِٹزجیسے سینما بھی ۔ اب تو چہرے بھی ویسے نہیں جیسے پرانے لاہور میںتھے ۔ اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی اور انتہاء کہاں پر ہوگی مجھے نہیںپتہ۔ مجھے جو یاد پڑتا ہے وہ ہیں شوکت عزیز جنہیں پیار سے لوگ شاٹ کٹ عزیز بھی کہتے ہیں ۔ لیزنگ کلچر وہی لائے اور پھر جس کے پاس سائیکل ہونے چاہیے تھی اس کے پاس موٹر سائیکل آگئی اور جس کی اوقات موٹر سائیکل کی تھی وہ گاڑی لے کر سڑک پرآگیا۔ میں کئی گھروں کے آگے سے گزرتاہوں تو دل سے صدا آتی ہے ۔ گھر تین مرلے کا گاڑی پانچ مرلے کی۔ سڑکوں پر گاڑیوں کا ایک سیلاب ہے جو سکندراعظم کی فاتح افواج کی طرح امڈتا چلا آ رہا ہے۔ موبائل ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہر کسی کو ’’باشعور‘‘ بنا دیاہے۔ ہر گائوں کا مکین لاہور کو نیو یارک سمجھتا ہے اور مقدر کا سکندر بننے لاہور چلا آتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کا لاہور آبادی کے بوجھ سے پھٹاجارہا ہے۔ رائے ونڈ سے کوٹ رادھا کشن تک اور شرقپور شریف سے شیخوپورہ تک بھی لاہور ہے اور مریدکے سے قصور تک بھی لاہور ہے۔ پنجاب کے سارے چھوٹے شہر لگتا ہے سمٹ کر لاہور میںآگئے ہیں۔ آبادی کے قافلے ہیں جو نقل مکانی کررہے ہیں لاہور کی جانب مسلسل ۔ آپ جب صبح سڑک پرآتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ وہ لاہور جو دور دور تک پھیلا ہوا ہے اُس کے باسی اور مکین اپنی اپنی اوقات کی کنووینس پر لاہور کی جانب بھاگتے ہیں ۔ یہ انسانوںکا سیلاب ہوتا ہے اور اس سیلاب کی یلغار میں لاہور کی سڑکیں۔ سڑکوں پر یوںلگتا ہے جیسے ٹریفک کی لڑائی ہے یا شاید جلد منزل تک پہنچنے کا یُدھ ۔ ٹریفک پولیس بے بس نظرآتی ہے ۔ سٹیٹ اور حکومت کی رِٹ کہیں نظرنہیں آتی۔ کوئی پوچھنے ، بتانے اور روکنے والا نہیں ۔ ہائوسنگ سکیمیں خود رو پودوںکی طرح بڑھ رہی ہیں ۔منظور شدہ بھی اور غیر منظور شدہ بھی ۔ جو چاہتا ہے LDA کی دُم یا ناک مروڑ دیتا ہے ۔ ٹاپ سے بوٹم تک اگر کوئی مزاحمت کرے تو وہ OSD بن جاتا ہے۔ لیڈرشپ کو ہوش نہیں ، افسران کے مفاد میں نہیں کہ کب اس سب کو روکنا ہے اور کہاں پر روکنا ہے۔ وہ جو کبھی سادہ سے گائوں کے معصوم دیہاتی ہوتے تھے اُن کے رقبے جب جناتی ہائوسنگ سکیموں میں آگئے تو وہ ایک دم معصوم دیہاتی سے متکبر لاہوری بن گئے۔اس سے کیا ہوتاہے ؟ سماج کچھ اور بد صورت ہو جاتا ہے ، کچھ اور احساس برتریاں اور لاہور ہی کے دامن میں کچھ اور احساس کمتریاں ۔ آپ ہی سوچئے جب کوئی معاشرہ یا شہر اس قدر بے ترتیب اور بے سمت انداز میں پھیلے تو پھر جرم اور سزا کہاں ٹھہریں گے؟ اک منظر جو بڑا عام ہے مگر بہت کچھ بتاتا ہے ۔ ایک ویڈیو وائرل ہوتی ہے ۔ یہ فلاں برادری ہے ، اس کا اتنے ایکڑ رقبہ فلاں سکیم میںآیا ، یہ اس کے نوجوان مہنگی ترین ہائی روف گاڑی پر سوار ہو کر ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں ۔ مڈل کلاس کے طالبعلم لڑکے اور لڑکیاں پاس سے گزر رہے ہیں موٹرسائیکلوں پر اور چھوٹی گاڑیوں پر۔ حیرت سے تک رہے ہیں کہ ہماری کتابوں اور ہمارے والدین نے یہ سارے منظر تو ہمیں بتائے ہی نہ تھے ۔ یہ کونسا لاہور ہے؟ حکومت اور ریاست صرف اتنا سا بھی نہیں کرسکتی کہ موٹر سائیکل سواروںکو بتایا جائے کہ اُن کی لین کون سی ہے۔ ٹریفک وارڈنز بے بسی سے اُنہیں دیکھتے ہیں جب وہ ناگن ڈانس کرتے ہوئے ایک لین سے دوسری لین میں بار بار داخل ہوتے ہیں ۔ گاڑیوں کو زخمی کرتے ہیں اور کوئی ندامت ، کوئی شرمندگی اور کوئی تعلیم اُن کا کچھ نہیں بگاڑتی ۔ کیاکسی حکومت کے کسی ڈیپارٹمنٹ کا فرض نہیں کہ ایک آگاہی مہم شروع کرے کہ بھائی موٹر سائیکل والو ۔۔ ۔یہ ٹریفک کی تعلیم ہے ۔۔۔مگر حکومتیں بیچاری کیا کریں ، افسر بیچارے کیا کریں ۔۔۔ انہیں تو اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات۔ صوفی تبسم پرانے لاہورئیے تھے ۔ دیو سماج روڈ پر رہتے تھے ۔ کشمیری خاندان تھا اور ایک تنور بھی جس میں اُن کا خاندان کلچے لگاتا تھا۔ صوفی صاحب انتہائی پڑھے لکھے انسان تھے ۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ان کا گہرہ تعلق تھا ۔ اُن کا ایک شعر شاید آج کے لاہور کے پر صادق آتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ درد بنے دردِ لا دوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو مگر شاید اب درد بڑھ چکا ہے دوا کے مقام سے ۔