بحیثیت اسلامی ملک کے ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کی پاسداری کی جانی چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ہم عورت کو معاشرے کا حسن، وقار اور استحکام کی ضمانت قرار دیتے ہیں اور سب سے زیادہ ظلم بھی اسی پر کرتے ہیں۔ گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنا اور جنسی طور پر ہراساں کرنا،وراثت سے محرومی، کم عمری میں شادی، جائیداد ہتھیانا، غیرت کے نام پر قتل جیسے اقدامات عام ہیں۔جاگیر دارانہ ذہنیت، قبائلی کلچر اور انتہا پسند مذہبی سوچ، رواج اور رسومات ابھی تک موجود ہیں۔ خاص طور پر عورتوں کے حوالے سے ہمارا سماج بڑے متعصب اور امتیازی رویوں کا حامل ہے۔ ہم دورِ جاہلیت کے قواعدوضوابط اپنے اوپر مسلط کئے ہوئے ہیں، بیٹیوں کے ساتھ دورِ جاہلیت سے بھی بد تر سلوک کر رہے ہیں وہ تو اپنی بیٹیوں کا ایک بار قتل کرتے تھے مگر ہم پر ورش سے لے کر مرنے تک کئی دفعہ قتل کرتے ہیں،کبھی بیٹے کو برتر اور بیٹی کو بدتر سمجھ کر اس کے جذبات کا قتل کرتے ہیںتوکبھی اس کی مرضی کے خلاف بیاہ کر اس کے احساسات کا قتل ِ عام کر دیتے ہیں۔ ان نامساعد حالات کے باوجود خواتین نے ترقی کی اورہر میدان میں قابل ستائش کردارادا کیا ہے۔ عدلیہ، بیوروکریسی، پارلیمنٹ، ادب، تعلیم، صحت، صحافت اور سپورٹس کے شعبوں میں خواتین اپنے جوہر دکھارہی ہیںاور نجی ادارے بڑی کامیابی سے چلارہی ہیں۔ خواتین ہر وہ ایسا کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں جسے مردوں کے لئے مخصوص سمجھا جاتا ہے ۔ موجودہ حکومت نے خواتین کی با اختیاری اور انکو تحفظ فراہم کرنے کیلئے جو اقدامات کیے وہ قابل تحسین ہیں۔ اہم محکموں میں بطور چیئرپرسن، سیکرٹری، ڈائریکٹر جنرل ، اور دیگر انتظامی عہدوں پر خواتین کو مقرر کرکے حقیقی تبدیلی کا آغاز کیا۔ بری، بحری ، فضائی افواج،رینجرز اور پولیس میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہوئی ہے۔ آئی جی پنجاب انعام غنی کی طرف سے خواتین کو ہراساں کئے جانے کی روک تھام کیلئے ’’اینٹی ویمن ہراسمنٹ اینڈ وائلینس سیل‘‘کا قیام بروقت اور انتہائی احسن قدم ہے ۔پنجاب میں خواتین سے زیادتی اور ہراسمنٹ کے واقعات کی روک تھام کے لیے آئی جی پنجاب انعام غنی نے صوبے کے تمام اضلاع میں ’’اینٹی ویمن ہراسمنٹ اینڈ وائلینس سیل‘‘ قائم کرنے کا حکم دیا ۔ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب سہیل اختر سکھیرا ’’اینٹی ویمن ہراسمنٹ اینڈ وائلینس سیل ‘‘کی کلوز مانیٹرنگ کریں گے جبکہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شارق جمال ہر مقدمہ کی میرٹ پر تیز رفتار تفتیش کی مانیٹرنگ کو یقینی بنائیں گے۔ ضلعی سطح پر یہ خصوصی سیل سی پی اوز اور ڈی پی اوز کی نگرانی میں کام کریں گے۔اینٹی ویمن ہراسمنٹ اینڈ وائلینس سیل میں فون کالز کی موصولی کیلئے مناسب ٹیلی فون لائنز کا انتظام کیا جائے۔خواتین کی جانب سے موصول ہونے والی شکایات کی کالز پر 15منٹ میں رسپانس کو یقینی بنایا جائے گا۔ اینٹی ویمن ہراسمنٹ اینڈ وائلینس سیلز میں لیڈی پولیس اہلکار وکٹم سپورٹ آفیسر کے فرائض سر انجام دیں گی۔اس اقدام سے خواتین کو خود اعتمادی اور تحفظ ملے گا۔سندھ ،بلوچستان ، خیبرپختونخوا،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر حکومت کو بھی چاہئے کہ خواتین کے تحفظ کیلے قانون سازی اور خصوصی سیل کا قیام عمل میں لائیں۔ لازم ہے کہ دیہی خواتین کو ’’اینٹی ویمن ہراسمنٹ اینڈ وائلینس سیل‘‘ کی اہمیت کے حوالے سے باشعور بنایا جائے کیونکہ خواتین کا ایک بڑا اور اہم حصہ دیہاتوں میں رہتا ہے جہاں وہ تنگ نظر سوچ کے حامل افراد کے ظلم سہنے پر مجبور ہیں ان کو تو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو کس طرح سے روک سکتی ہیں۔کشف فائونڈیشن، عورت فائونڈیشن، تحریک نسواں،وومین ایکشن فورم ،وومین رائٹس ایسوسی ایشن ،شرکت گاہ وومین ریسورس سینٹر،دختر فائونڈیشن ،بیداری ،خاتون فائونڈیشن ،الخدمت فائونڈیشن سمیت مختلف سماجی تنظیمیں معاشرے میں خواتین کے وقار اور ان کی سربلندی کیلئے کوشاں ہیں۔ گھروں میں مقید خواتین کو اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا موقع ملا تو انہوں نہ صرف اپنا آپ منوایا بلکہ اپنی ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں سے مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا،گزشتہ ایک دہائی سے ہر تعلیمی میدان چاہے جنرل تعلیم ہو یاسی ایس ایس اور پی ایم ایس کے مقابلہ جاتی امتحانات، تمام نمایاں پوزیشنز پر خواتین کا ہی غلبہ نظر آتا ہے۔ موٹر سائیکل کے ذریعے بلنداور خطرناک پہاڑی سلسلے سر کرنے کا انوکھا ریکارڈ گجرات سے تعلق رکھنے والی یمنیٰ وڑائچ کے نام ہے۔کراچی سے خیبر، خنجراب پاس سے لیکر قراقرم گلیشئیر کے برف پوش پہاڑوں پر موٹر سائیکلنگ کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلاء کر دیا،پاکستان کو دنیا کا خوبصورت اور محفوط ترین ملک قرار دینے والے یمنیٰ وڑائچ نے ہزاروں کلومیٹر کا طویل اور پرخطر پہاڑی سفر جی ڈی 110 موٹر بائیک پر اکیلے طے کیا۔کبھی وہ دور تھا کہ خواتین کے ٹی وی دیکھنے پر بھی پابندی تھی آج یہ عالم ہے کہ الیکڑانک میڈیا میں صرف ٹی وی سکرین پر بطور اینکرپرسن اور تجزیہ کار ہی نہیں بلکہ ڈائریکشن اور پروڈکشن جیسے مشکل کام میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی نظر آتی ہیں۔صرف کھیل ،سیاست اور صحافت ہی نہیں بلکہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے بھی ایس ایس پی عمارہ اطہر، ایس ایس پی شائستہ رحمان ، ایس ایس پی ندا ریاض چٹھہ،ایس پی ارم اعوان،ایس پی صبا ستار، ایس پی شہلہ قریشی، ایس پی انوش مسعود چوہدری، ایس پی سہائی عزیزتالپور،ایس پی امبرین علی،ایس پی عائشہ بٹ، ایس پی عمارہ شیرازی،اے ایس پی آمنہ بیگ، اے ایس پی عقیلہ سیداور اے ایس پی پری گل جیسی بہادر خواتین آفیسرز اپنی جان کی پرواہ کیے بن وطن عزیز کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو برابری کے حقوق دئیے جائیں اور صرف زبانی جمع خرچ کی بجائے ان کے مسائل اور مصائب کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا ہوگا اور تمام امتیازی قوانین ختم کرکے ان کوتحفظ کا احساس اور ترقی کرنے کے مساوی مواقع دینے ہوں گے۔خواتین کو گھر کی چار دیواری میں بند کرکے پاکستان کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔