25 مئی کے دن ریاست نے اپنے ہی شہریوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اورجس درجے پر پنجاب پولیس کو مڈل کلاس طبقے بالخصوص خواتین کے خلاف استعمال کیا گیا، اس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ 25مئی کے دن ہم نے دیکھا کہ پڑھے لکھے طبقے کے افراد، بشمول کثیر تعداد میں ریٹائرڈ فوجی افسران، اپنے خاندانوں سمیت اسلام آباد کے لئے نکلے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ معمول سے ہٹ کر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے یہ خاندان سرکاری پکڑ دھکڑ والی بسوں لاریوں میں نہیں، ذاتی کاروں، موٹر سائیکلوں اور اپنی جیب سے کرائے پر لی گئی کوسٹروں پرنکلے تھے۔گزری دو چار راتوں کے دوران گھروں پر مارے جانے والے چھا پوں سے جنم لینے والے خدشات کے باوجود دن چڑھے رنگا رنگ ملبوسات اوڑھے مرد و زن کا جذبہ قابلِ دید تھا۔تاہم ناکوںپر پولیس کے لاٹھی بردار سپاہیوں کے ساتھ ساتھ سادہ لباس میں ملبوس ڈنڈا بردار جتھے جب اُن کی گاڑیوں پر ٹوٹ پڑے تو مڈل کلاس طبقے سے وابستہ پڑھے لکھے افراد بالخصوص خواتین اور بچوں کے لئے صور ت حال بالکل نئی تھی۔ حیران کن طور پر مگرسارا دن تمام تر ریاستی کارروائیوں کا انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ سکہ بندسیاسی کارکن مگرپولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کا جو کھیل کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں، احتجاجی سیاست کے میدانِ کارزار میںقدم رکھنے والے نوآزمودہ کھلاڑیوں کے بس کی بات نہیں تھی۔چنانچہ شام گئے پولیس کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو عبور نہ کر سکنے کے بعداپنی اپنی عمر بھر کی کمائی سے خریدی گئی گاڑیاں تڑوا کر تھکے ہارے گھروں کو لوٹ آئے۔ اسلام آباد میںاُسی شب ڈی چوک میں صرف مقامی شہری ہی پہنچ سکے تھے۔ ان میں بھی ایک بڑی تعداد مڈل کلاس شہریوں کی تھی۔کئی ریٹائرڈ فوجی افسر اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ یہاں بھی موجود تھے۔ انہی میں جہاں میرے کئی پرانے رفقاء شامل تھے تو وہیں میرے ایک یونٹ آفیسر کا نوجوان بیٹا ثاقب بھی موجود تھا۔ نسٹ سے انجنیئرنگ کرنے کے بعد ثاقب اب ایک کامیاب اور قانون کی پاسداری کرنے والا بزنس مین ہے۔ثاقب ساری رات ڈی چوک میں ہزاروں کی تعداد میں پھینکے جانے والے آنسو گیس گولوں کا سامنا کرتا رہا اور میدان میں ڈٹا رہا۔ میں اور آپ جب نصف شب کے آس پاس کسی’ہائی ڈرامے‘ کا انتظار کرتے کرتے اپنے اپنے ٹی وی بجھا کر سو گئے تھے تو ثاقب اس وقت بھی وہیں کھڑا تھا۔ اس کی جیب میں موبائل فون، بٹوے میںچند کارڈز،کچھ رقم اور ہاتھ میں پانی کی ایک بوتل تھی۔دن چڑھے ریاست نے شہریوں کو بتایا کہ گزری شب ڈی چوک میں جمع ہونے والے’ دہشت گرد وں‘ اور’ انتشاریوں‘کے عزائم کو پولیس اور رینجرز نے مل کر ناکام بنا دیاہے ۔ ثاقب کو مگر میں اس کے پچپن سے جانتا ہوں۔میںیہ بھی جانتا ہوں کہ صرف ثاقب نہیں اس جیسے کئی نہتے نوجوان اس رات ڈی چوک میں پولیس اور رینجرز سے بر سرِ پیکار رہے تھے۔ چنانچہ اگلا روز میں نے یہی سوچتے ہوئے گزارا کہ مڈل کلاس طبقے سے وابستہ شہریوں کے ساتھ ریاست نے جو سلوک روا رکھا،کیا یہی درست راستہ تھا ؟ کیا ریاستی جبر سے نوجوانوں کی سوچ کو بدلا جا سکتا ہے؟ گزشتہ ہفتے، موٹر وے پر بھیرہ ریسٹ ایریا میں ایک وفاقی وزیر کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر بہت لے دے ہوچکی۔ راتوں رات واقعے کی ویڈیو عام ہوگئی۔شاید اسی بناء پر جناب احسن اقبال نے بھی چھوٹتے ہی ایک ٹویٹ کرنا مناسب خیال کیا۔اس ٹویٹ میں خود پر آوازے کسنے والی ’یوتھیا فیملی ‘ کو’جاہل قرار دیتے ہوئے انہوں نے ہمیں بتایا کہ مکالمے کی بجائے اس ’الیٹ‘ فیملی نے ہلڑ بازی سے کام لیا۔( وزیر موصوف خواتین اور بچیوں سے کس درجہ کی ’مکالمہ بازی‘ کر رہے تھے ، اس کا انکشاف دو روز بعد منظرِ عام پر آنے والی ایک اور ویڈیو سے ہوا )۔اسی ٹویٹ میں وزیرِ موصوف نے فخریہ انداز میںہمیں یہ بھی بتایا کہ وہاں پر موجود لوگوں نے جواب میں ’’گوگی کا حساب دو‘‘ کے نعرے لگائے۔کیا واقعی ایسا ہواتھا؟ یاکہ یہ نعرہ محض آپ کی اپنی ذہنی اختراع تھی؟ اگر تو گوگی کو لے کر آ پ کا دعویٰ آپ کی دلی کیفیت کا عکاس تھا تو پھرآپ پر نعرے کسنے والی بچیوں اور عمرکے اس حصے اور مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود خود آپ کی اخلاقیات کا معیار مختلف کیسے ہوا؟ اگلے ہی روزوزیر موصوف نے ریسٹورنٹ میں نصب سیکیورٹی کیمروں سے حاصل کی گئی ریکارڈنگ سے لئے گئے خواتین کے چہروں کے کلوز اپ اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر پوسٹ کر دیئے۔دوسری طرف ایک لیگی رہنما کے فرزندانہی خواتین کی تصویریں (ن) لیگ کے کارکنوں کو اس پیغام کے ساتھ پوسٹ کیں کہ ’’گوگی کے حمائیتی‘‘جہاں ملیں ان کو جوتے مارے جائیں۔ اس سب کے دوران بزرگ صحافیوں کے علاوہ،الیکٹرانک میڈیا کی پیداوار خواتین و حضرات کہ جن کے چہروں کوہم ایک ڈیڑھ عشرے سے اب اچھی طرح پہچانتے ہیں، اس مڈل کلاس خاندان اور اس کی خواتین کو مسلسل ’اخلاقیات ‘کا درس دیتے، ان پر لعن طعن کرتے اور نفرت انگیز رویوں کے لئے عمران خان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے رہ رہ کر آبدیدہ ہوتے رہے۔کیا اس سب کے بیچ ملکی ایجنسیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی ہوں گی؟ مڈل کلاس پڑھے لکھے گھرانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے، ڈی چوک سے لے کر بھیرہ کے ریسٹ ایریا میںرونما ہونے والے نا خوشگوار واقعے تک، ان تمام ’کاریگریوں‘ کا موئثر مظاہرہ کیا گیاہے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن اور مراعات ضبط کئے جانے کی باتیں اورایاز امیر جیسے کسی سینئر پاکستانی کویوں دن دہاڑے مارنے پیٹنے جیسے واقعات پہلی بار ہو رہے ہیں۔دوسری طرف ضروری سمجھا گیا کہ اس خاندان کے بڑے نارووال پہنچیں اور جنا ب احسن اقبال سے معافی مانگیں۔ اندازہ یہی ہے کہ ضرور کئی وسوسے اور اندیشہ ہائے دوردراز تصویر میں کسمسائے بیٹھے والدین کے پیشِ نظر ہو ں گے۔میں یہ تسلیم کرنے سے سراسر انکاری ہوں کہ ہماری سیاسی اور عسکری الیٹ کو معاشرے میں آنے والی غیر معمولی تبدیلی کا ادراک نہیں۔سوال وہی باقی ہے،کیا جبر کے ہتھکنڈوںسے نوجوانوں کے دلوں کو بدلا جا سکتا ہے؟ کسی بھی معاشرتی اور معاشی طور پر پسماندہ ملک کی طرح پاکستان کی نسبتاً آسودہ حال مگر پوری طرح با شعور مڈل کلاس کا حجم معاشرے کے دیگر طبقات کی نسبت مختصر ہے۔اس وقت جبکہ یہ تحریرآپ کے زیرِ نظر ہوگی، پنجاب کے بیس حلقوں میں انتخابات کے لئے ووٹنگ جاری ہو گی۔شام گئے آنے والے انتخابی نتائج سے ہی انداز ہ ہو گا کہ شعور و آگہی کی لہر متوسط طبقے سے ہوتی ہوئی محرومی اور افلاس کے مارے طبقات میں بھی پوری طرح سرایت کرچکی ہے، یا نہیں۔