روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ میں نیب کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے آئی پی پیز کو آئندہ بیس سال میں 18 ارب ڈالر کی اضافی ادائیگی کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی کی حکومتیں بدعنوانی کے سدباب کے بجائے پاور ڈویژن کی افسر شاہی کی سیاہ کاریوں کی قیمت قومی خزانے سے ادا کرتی رہی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے480 ارب کی خطیر رقم سرکلر ریٹ کی مد میں ادائیگی کے بعد صرف 5 سال میں گردشی قرضے 1300 ارب تک نہ پہنچتے۔ پاور ڈویژن کی بیوروکریسی اور آئی پی پیز کے گٹھ جوڑ کو مافیا قرار دینا اس لیے بھی غلط نہ ہوگا کیونکہ رواں برس سپریم کورٹ میں سیکرٹری پاور ڈویژن آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر ادائیگیوں کا اعتراف کر چکے ہیں ۔ملک آئی پی پیز کی ادائیگیوں کے گھن چکر میں اس لیے پھنساہوا ہے کیونکہ ماضی کی حکومت نے نہ صرف پاور کمپنیوں کو ان کی استعداد کے مطابق بجلی کی قیمت ادا کرنے کی گارنٹی دی بلکہ اکثر کمپنیوں کی استعداد کے جعلی سرٹیفکیٹ بھی بغیر تحقیق قبول کر لیے جس کی وجہ سے مستقبل میں 18 ارب ڈالر کی زائد ادائیگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ بہتر ہوگا حکومت پاور ڈویژن میں شفافیت کو یقینی بنانے کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لے تاکہ آئی پی پیز اور بیوروکریسی کی لوٹ کا سلسلہ بند ہو سکے اور ملک کو آئے روز کے گردشی قرضوں کے بوجھ سے بھی نجات مل سکے۔