ہماری بہت سی قومی بد قسمتیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ہر اچھے کام کو بھی نہایت برے طریقے سے کرنے کے عادی ہیں۔ کل ہی ایک لندن پلٹ دوست سے بات چیت ہو رہی تھی جو تفریح و تقاریب کے لیے ہمیشہ وطنِ عزیز کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مَیں سیر و تفریح اور کاروبار کی خاطر بھانت بھانت کے ملکوں میںگھوما ہوں اور پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ قادرِ مطلق نے جتنے متنوع قدرتی وسائل، متبرک موسموں اور متفرق زمینی مزاجوں سے پاکستان کو نوازا ہے، ایسی رنگا رنگی شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے کے حصے میں آئی ہو لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہمیں آج تک ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو کجا، ڈھنگ سے ان کو استعمال کرنا بھی نہیں آیا۔ یہاں جو بھی بزرجمہر آیا، اس کی یہی کوشش رہی کہ وہ ان جملہ وسائل اور خوبصورتیوںکو اپنی ذاتی تجوریوں اور جہنم نما پیٹوں میں تب تک بھرتا چلا جائے، جب تک ملک الموت آ کے اس کے ٹینٹوے پہ ہاتھ نہ رکھ دے۔ آپ ذرا ملکی بنکوں کا نظارہ کر لیں، غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے مغرب کی طرز پر کیسے شان دار پلازے اور قابلِ رشک بلڈنگیں کھڑی کر رکھی ہیں، پھر ان کو دیدہ زیب افرنگی صوفوں، ٹھنڈی مشینوں اور برقی قمقموں سے بقعۂ نور بنا رکھا ہے، شاعر مشرق نے سو سال قبل ہی سرمایہ کاری کی انہی غلط ترجیحات کی بنا پر اہل یورپ کو متنبع کیا تھا: رعنائیِ تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں گِرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات پھر یہی بنک اپنی نام نہاد کارکردگی کی دھاک بٹھانے کے لیے کروڑوں روپے اشتہارات پہ خرچ کرتے ہیں لیکن جو سیدھے سادے لوگ اپنے انتہائی ضروری کاموں کو پسِ پشت ڈال کر اپنا قیمتی وقت بلوں، قرضوں کی اقساط، بچوں کی فیسوں وغیرہ کی مد میں بھاری رقوم جمع کروانے پر خرچ کرتے ہیں، ان کو یہ کڑی دھوپ میں سڑکوں کے کنارے گھنٹوں کھڑا رکھ کے ایسی تذلیل کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ! اور جو لوگ اپنی کسی ضرورت یا مجبوری کی وجہ سے ان سے قرضہ لینے آ جائیں ان کا تو پوچھیے ہی مت… اگر کسی سرکاری زعیم کو بلا وجہ یا بلا واپسی والا قرضہ درکار ہو تو یہ پورے دفتری ریکارڈ سمیت ان کے درِ دولت پہ راتوں رات حاضر ہو جاتے ہیں۔ یوسفی جی جو خود ایک بہت بڑے بینکر تھے، نے سچ کہا تھا کہ جو بنک سے معمولی قرض لے، وہبنک کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور جو اربوں کھربوں کی باٹ لگائے، بنک اس کے رحم و کرم پر!! حکیم جی کا کہنا ہے کہ ہمارا واسطہ ایسے بد بخت سسٹم سے ہے جہاں شریف آدمی کے لیے نہ پیسہ لینا سہل ہے نہ سرکاری خزانے میں جمع کرانا آسان !! اسی طرح جب خدا خدا کر کے ہمارے ہاں مختلف محکموں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے کا مرحلہ آیا تو یار لوگوں نے اس میں ایسے ایسے سقم بھر دیے کہ سائلین و صارفین کو کہنا ہی پڑا کہ ہم لنڈورے ہی بھلے۔ بد نیتی سے مثبت نتائج کی توقع تو کیا ہوگی، خراب طریق کار کی بنا پر وہ نظام، سلسلہ اور ضابطہ ہی بے کار اور فضول لگنے لگتا ہے۔ کسی ادارے یا محکمے میں ملازمت کی بھنک پڑتی ہے تو مذکورہ اتھارٹی اتنے کاغذات کا مطالبہ کر دیتی ہے کہ ٹرکوں کے حساب سے ردی اکٹھی ہو جاتی ہے، جسے دیکھنے سنبھالنے میں مہینے لگ جاتے ہیں۔ بے روزگار کے بس میں ہو تو وہ گھر میں اپنی فوٹو کاپی مشین رکھ کے بیٹھ جائے۔ ابھی سروس کمشن میں ایک سَو اسامیوں کے ٹسٹ ہوئے، جس کے لیے پینتالیس ہزار امیدوار تھے۔ محکمے کو صرف سو لوگوں کے کاغذات کی ضرورت ہے، جو سلیکشن کے بعد لے لیے جائیں، پورے اُردو بازار کو وَخت ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ عید کا مبارک اور پُرمسرت موقع آ جائے تو ہم چاند کا پھڈا ڈال کے سارا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں، بقول عباس مرزا: خوشی جے آ گئی اے تے کِنج منا لَئیے ساڈے گھر تے ایہ وی رونا پَے جاندا اے آج کل ملک میں ای چالان کی رسم چلی ہوئی ہے، بہت اچھی بات ہے۔ چوکوں میں کیمرے بھی لگ گئے، قانون شکنوں کی ’سیلفشیاں‘ بھی بن گئیں، گاڑیوں اور ڈرائیوروں کا ریکارڈ بھی حاصل کر لیا گیا، لاکھوں کروڑوں کے جرمانے بھی ہو گئے لیکن عوام کو نئے سسٹم سے متعارف کرانے اور لوگوں کو، ان کی خلاف ورزیوں سے آگاہی کا کوئی معقول اور باسلیقہ نظام متعارف نہ ہو سکا۔ زیادہ سے زیادہ اتنا کیا کہ ٹریفک کا کوئی دن مناتے ہوئے کسی نہ کسی چوک میں اِکا دُکا مسکین صورت وارڈن کھڑے کر دیے، جو گھنٹوں کسی بزرگ یا شریف صورت شہری کو خُرد بین سے تاکتے رہتے ہیں اور جیسے ہی ان کی مراد بر آتی ہے وہ ان کو سڑک کے کسی ویران گوشے میں لے جا کر ڈیٹ مارنے کے انداز میں خوش خبری سناتے ہیں کہ آپ قانون کے بہت بڑے مجرم قرار پا چکے ہیں ۔ آپ کی گاڑی اگر اسی طرح شہر کی سڑکوں پر رواں رہی تو معاشرے میں بہت بڑا بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ان بے چاروں کے پاس نہ مناسب معلومات ہوتی ہیں، نہ نقد جرمانہ وصول کرنے اور ’مجرم‘ کا فالتو وقت بچانے کا اختیار… اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت یا جواب کہ اگر قانون کو ایک دم ایسا ہی خطرہ لاحق ہو گیا ہے تو اب تک ’خطرناک مجرم‘ کو اس کے طویل اور سنگین سلسلہ ہائے جرائم کی اطلاع کیوں نہ کی گئی؟ محکمہ آج تک اس فضول سوال کا صرف ایک ہی تسلی بخش جواب تلاش کر پایا ہے کہ احتیاط کے تقاضوں اور ’مجرم‘ کی عزتِ نفس مجروح ہو جانے کے عمیق خدشے کے پیشِ نظر آپ کے موبائل، وٹس ایپ یا نادرا سے دستیاب موجودہ پتے پر خبر کرنے کی بجائے ان سانحات کی اطلاع آپ کے اُس مستقل پتے پر روانہ کر دی گئی ہے، جہاں خط یا چِٹھی، ماجھے دکان دار کو مل کے کسی آتے جاتے راہی پاندھی کے ہاتھ مدعی تک پہنچنے کا امکان ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس کے بعد قانون کے وہ محافظ آپ سے محض، جوکھم سے حاصل کیے گئے ڈرائیونگ لائسنس یا خالص تے اصلی شناختی کارڈ کے عوض، سارے فضول کام، تقریبات اور خواہ مخواہ کی دنیا داری ترک کر کے لق و دق ویرانے میں کوئی فوٹو کاپی مشین، پرنٹر اور انٹرنیٹ کنکشن ڈھونڈنے جیسے قیمتی مشورے سے مفتو مفت نوازتے ہیں۔ ساتھ ہی خوش خبری سناتے ہیں کہ اگر آپ یہ سب ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں تو اسی علاقے میں دستیاب خضر سے کسی سرکاری بنک کا پوچھیے گا۔ قسمت اچھی ہوئی تو وہ بھی کہیں نہ کہیں میسر ہو ہی جائے گا۔ ایسے میں اگر کوئی بد تمیز ’مجرم‘ اپنے لائسنس یا شناختی کارڈ کی واپسی کا دریافت کر بیٹھے تو وہ تُرت جواب دیتے ہیں: اتنی سی دنیا ہے، کہیں نہ کہیں دوبارہ ملاقات ہو ہی جائے گی۔ ہم آپ کے ڈاکومنٹس کھا تھوڑی جائیں گے؟ ایسی محبوب اداؤں پر ہم محکمے سے اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں: تسلی ، تشفی ، اشارے ، کنائے ایسی محبت سے ہم باز آئے