ملکی سیاسی اور معاشی حالات تو پچھلے چند مہینوں سے تویشناک تھے ہی مگر اب سیکیورٹی کے مسائل بھی روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ پشاور پولیس لائن میں ہونے والے دھماکے نے پاکستان اور پاکستانیوں سے متعلق ہر شخص کو سکتے کی حالت میں چھوڑا۔ آئی جی کے پی پولیس نے اپنی پریس کانفرنس میں ابتدائی تحقیقات کا نتیجہ یہ بیان کیا کہ مسجد پر حملہ کرنے والا شخص پولیس کی وردی میں ملبوس تھا، اس لیے ناکے پر موجود پولیس اہلکاروں نے اسے اپنا بھائی سمجھ کر چیک نہیں کیا۔ یہ واحد واقعہ نہیں ہے، جس میں انسانی جذبات کی وجہ سے غلطی ہوئی اور اس غلطی کے نتیجے میں ہمیں کئی قیمتوں جانوں کا نقصان ہوا، بلکہ دنیا بھر میں ایسی غلطیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ان غلطیوں پر گہری نظر رکھنے والے لوگ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسانوں کے یہ جذبات کبھی بھی ختم نہیں کیے جا سکتے، یوں انسانوں کی زیادہ سے زیادہ تربیت کرکے ایسی غلطیوں کو شاید کم تو کیا جا سکتا ہے مگر ان غلطیوں کو ختم کرنے کا واحد طریقہ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ ٹیکنالوجی کیلیے نہ کوئی بھائی ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمن ۔اس لیے اس کو جو احکام دیے جائیں وہ ان احکامات پر من و عن عمل کرتا ہے۔ یہی پولیس لائن کی مثال لے لیں، جس کو انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے اور اسی حساسیت کے پیش نظر پاکستانی معیار کی اعلیٰ سیکیورٹی حصار بھی قائم کیے رکھے ہیں۔ یہ سیکیورٹی مکمل طور پر پولیس اہلکاروں کے ذریعے قائم ہے۔ جو شخص بھی چیک پوائنٹ سے پولیس اہلکاروں کو مطمئن کر سکا، وہ اس حساس علاقے میں داخل ہو سکتا ہے۔ اب اگر دوسری جانب اسی سیکیورٹی کو ٹیکنالوجی سے بدلا جائے اور پولیس اہلکاروں کی مدد کیلیے کیمرے اور دوسرے جدید سینسرز لگائے جائیں۔ ان کیمروں اور سینسروں میں یہ صلاحتیں ہوں کہ وہ ہر گزرنے والی گاڑی یا موٹر سائیکل کا نمبر پلیٹ پڑھ کر اسی وقت رجسٹریش سسٹم سے ویری فائی کر سکیں کہ یہ کس کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ ہر پیدل یا سوار گزرنے والے شخص کی شناخت کرکے نادرا اور دیگر ڈیٹا بیسز سے اسی وقت چیک کر سکیں۔ اس کے علاوہ اندر داخل ہونے والوں کے پاس مخصوص کارڈ ہوں، جن کے اندارج پولیس کے سسٹم میں ہو اور ڈیجیٹل کارڈ ریڈر کارڈ کا ڈیٹا چیک کرکے یہ موازنہ کرے کہ آیا کیمروں اور سینسرز سے موصول ہونے والا ڈیٹا اور کارڈ رجسٹریشن میں موجود ڈیٹا آپس میں ایک ہے اور صرف اس وقت اندر داخل ہونے کی اجازت دے، جب ہر مرحلے میں شناخت پر مکمل یقین ہو۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے قائم سیکورٹی سسٹم کو مات دینا پولیس اہلکاروں کو مطمئن کرنے سے بہت مشکل ہوگا۔ اس کے علاوہ آج کی ٹیکنالوجی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ مذکورہ کام ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں کر سکتی ہے یوں کسی شخص یا گاڑی کو کہیں رکنا بھی نہیں پڑے گا اور ٹیکنالوجی کے ذریعے سے ہر پہلو سے اس کی شناخت بھی کی جا سکے گی۔ دوسری جانب کسی بھی مشکوک شخص یا گاڑی کو بغیر کسی نقصان اٹھائے روکا جا سکے گا۔ سیکیورٹی کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال موئثر بہرحال تب ہی ہوگا جب ہر سطح پر اصول و ضوابط کی پیروی کی جائے۔ مثال کے طور پر اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے گاڑیوں کے نمبر پلیٹ پڑھے جائیں اور ان کا ڈیٹا دیکھا جائے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی گاڑی نمبر پلیٹ رجسٹریشن سے رہ جائے یا اس پر نمبر پلیٹ نہ لگایا جائے۔ اگر سیکیورٹی کا ہی تقاضا ہو کہ کسی گاڑی کے ڈیٹا کو چھپایا جائے تو اس کیلیے یہ طریقہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس پر نمبر پلیٹ ہی نہ لگایا جائے بلکہ اس کی رجسٹریشن کیلیے کوئی ایسا طریقہ اپنانا چاہیے، جو مخصوص حالات میں مخصوص جگہ سے ہی کی جا سکتی ہو اور نمبر پلیٹ پڑھنے والی ٹیکنالوجی میں بھی یہ صلاحیت رکھی جائے کہ وہ اس مخصوص جگہ سے رجسٹرڈ گاڑی کی نقل و حرکت کسی مخصوص اور محفوظ ڈیٹا بیس میں سٹور کرے۔ اسی طرح کا طریقہ بعض دوسرے مسائل کے حل کیلیے بھی نکالا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر کسی ادارے کو ٹول ٹیکس سے استثنیٰ دینا ہو، تو اس کا یہ طریقہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان گاڑیوں کی رجسٹریشن ہی کہیں نہ ہو بلکہ ان کی رجسٹریشن بھی مخصوص جگہ پر ہونی چاہیے تاکہ ٹول پلازوں پر لگے نمبر پلیٹ ریڈرز یہ خود فیصلہ کر سکیں کہ ان گاڑیوں کو ٹول ٹیکس سے استثنیٰ ہے۔ اس کے برخلاف اگر گاڑیوں کی رجسٹریشن ہی نہ ہو، یا نمبر پلیٹ ہی نہ ہوں یا پھر کسی مخصوص رنگ یا نشان کی بنیاد پر سیکیورٹی چیک یا ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے تو ایسے میں ٹیکنالوجی استعمال نہیں ہوسکتی اور ہمیں اسی طرح انسانوں سے ہی کام لینا پڑے گا۔ اس کا نقصان یہ ہوگا کہ شرپسند عناصر ان سب باتوں کا فائدہ اٹھا کر انسانوں کی طرف سے قائم کردہ سیکیورٹی کے نظام کو مات دے سکتے ہیں۔ ابھی تک ہماری سیکیورٹی کا ہر سطح پر بہت حد تک دارومدار انسانوں پر ہی ہے اور اس لیے آئے روز سیکیورٹی کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم بھی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے سیکیورٹی کے معیار میں بہتری لائیں۔ کم از کم ہمیں ایسے کیمرے لگانے چاہیں جو انسانی چہروں کی شناخت کر سکیں، حساس جگہوں پر داخلے کیلیے بائیومیٹرک شناخت کو لازمی قرار دیں، ڈیٹا بیسز اور سافٹ وئیرز کی سائبر سیکیورٹی کو بہتر بنائیں تاکہ کوئی ان تک رسائی حاصل نہ کر سکے اور پھر ڈیٹا بیسز میں موجود ڈیٹا کو انکرپشن کے ذریعے محفوظ بنائیں تاکہ اگر کوئی رسائی حاصل کر بھی لے تو وہ ڈیٹا اس کیلیے قابل استعمال نہ ہو۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا کا بھی انتہائی اہم کردار ہے، اس لیے اس ڈیٹا کا بھی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے تجزیہ کرکے افراد اور گروہوں کے رجحانات متعین کرنے چاہیں اور سدباب کیلیے انتظامات کیے جائیں۔