ہمارے ملک میں اڑھائی کروڑ افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں‘ زیادہ تر سگریٹ نوشی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہمارے بیس فیصد بالغ افراد تمباکو کے نشہ میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ سال تقریبا پونے دو لاکھ افراد اس نشہ سے پیدا ہونے والی موذی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے۔ جو شخص ایک آدمی کو قتل کرے تو اسے قاتل کہا جاتا ہے‘ اور جو چیز لاکھوں لوگوں کی موت کا باعث بنے اسے کیا کہیں گے؟ تمباکو‘ سگریٹ کا کاروبار کرنے والے اتنے طاقتور ہیں کہ ہر حکومت اس کی روک تھام کرنے میں تساہل سے کام لیتی ہے حالانکہ عالمی برادری سے اسے کنٹرول کرنے کے عہد نامے کیے گئے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں سگریٹ پینے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کی غریب‘ مقروض قوم نے تین سو ارب روپے سگریٹ کے دھوئیں میں اُڑا دیے۔ موج اُن کی ہوئی جو اس نشہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ اب تو تمباکو کمپنیاں الیکٹرانک سگریٹ ایسی نئی مصنوعات بازار میں لے آئی ہیں جو گرم ہوتی ہیں لیکن جلتی نہیں۔ انہیں فروغ دینے کیلیے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ مصنوعات انسانی صحت کیلیے نسبتاً محفوظ ہیں کیونکہ تمباکو میں پایا جانے والا کیمیائی مادہ نکوٹین نشہ آور تو ہے لیکن بذات خود بیماریوں کا باعث نہیں‘ نقصان دہ اثرات اُن کیمیائی مادوں سے ہوتے ہیں جو تمباکو یا سگریٹ کے جل کر کے دھواں بننے سے نکلتے ہیں۔ امیر نوجوانوں میں اس نشہ کا فیشن بڑھ رہا ہے۔ حکومت اس کی روک تھام کیلیے اب تک کوئی قانون سازی نہیں کرسکی۔ پاکستان کی حکومت تمباکو نوشی کی روک تھام کیلیے عالمی ادارہ صحت کے بنائے گئے ایک بین الاقوامی عہد نامہ کی پابند ہے جسے فریم ورک کنونشن آف ٹوبیکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) کہا جاتا ہے۔ ہم نے 2005ء میں ایف سی ٹی سی کی توثیق کی تھی اور اس پر عمل کرانے کیلیے تمباکو سے متعلق پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم کی گئی تھیں۔ جس کے تحت ہمارے ہاں سگریٹ پیکٹوں پر وارننگ لکھی جانے لگی کہ تمباکو نوشی صحت کیلیے مضر ہے تاکہ نئے لوگ سگریٹ نوشی سے دُور رہیں اور جو عادی ہیں وہ اسے چھوڑنے پر مائل ہوں۔ تاہم پاکستان آج تک ایف سی ٹی سی معاہدہ کو پوری طرح نافذ نہیں کرسکا۔ اس کی نو بڑی شقوں میں سے صرف چار شقوں پر قانون سازی کی گئی۔ اس کے تحت سگریٹ کے پیکٹ پر تصویری خاکہ بنانا لازمی ہے جس میں سگریٹ نوشی سے صحت کو پہنچنے والا نقصان دکھایا جاتا ہے۔ بہت تاخیر کے بعد گزشتہ سال اس خاکہ کا سائز بڑھا کر پیکٹ کے ساٹھ فیصد پر لایا گیا حالانکہ وعدہ پچاسی فیصد کا تھا۔ حکومت کی حالت یہ ہے کہ وہ آج تک تمباکو ٹیسٹنگ کی ایک لیبارٹری نہیں بنا سکی۔ نہ سگریٹ اور تمباکو مصنوعات کی غیرقانونی تجارت روکنے کیلیے قانون سازی کی گئی۔ تمباکو اُگانے والے کاشت کاروں کو متبادل ذریعہ روزگار فراہم کرنے پر بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں کوئی کام نہیںکرسکیں۔ تمباکو زیادہ تر صوابی‘ بونیر اور مانسہرہ میںکاشت کیا جاتا ہے۔ تمباکو اور سگریٹ کا کاروبار کرنے والوں کی لابی بہت مضبوط ہے۔ یہ تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی اور روک تھام کے سرکاری فیصلوں کورکوانے‘ موخرکرانے میں اکثر کامیاب ہوجاتی ہے۔ ملک میں ایک سال میں ساڑھے آٹھ کروڑ کلوگرام تمباکو پیدا ہوتا ہے جسکا چالیس فیصد حصہ غیرقانونی سگریٹ سازی میں استعمال ہورہا ہے۔ حکومت کو اس سے کوئی ٹیکس نہیں ملتا۔ غیر قانونی سگریٹ کا کاروبار کرنے والے اربوں پتی بن چکے۔ پہلے وہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی سیاست میں داخل ہوئے۔ اب قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی ان کی رسائی ہوچکی۔ سگریٹ پر ’گناہ‘ ٹیکس نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جیسا دنیا کے دیگر کئی ممالک میں نافذ ہے۔ مقصد تھا کہ حاصل ہونے والی رقم صحت کے پروگراموں پر خرچ کی جائے لیکن بعد میں یہ ارادہ ترک کردیا گیا۔ تمباکو نوشی کنٹرول کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ بھی ہے کہ حکومت تمباکو اور سگریٹ کی فروخت سے اپنا خزانہ بھرنے کا کام لے رہی ہے۔ بہانہ بنایا جاتا ہے کہ سگریٹ نوشی ریگولیٹ کرنے سے قومی خزانہ کو نقصان پہنچے گا۔ وفاقی حکومت کو ملنے والی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ایک تہائی سگریٹ کمپنیاں ادا کررہی ہیں۔ مثلاً 2017-18 میں سگریٹ کمپنیوں نے 67.12 ارب روپے ایکسائز ڈیوٹی ادا کی۔ حکومت کو سگریٹ اور تمباکو سے ملنے والے ٹیکسوں سے وقتی فائدہ تو ہورہا ہے لیکن اس نشہ سے پھیلنے والی موذی بیماریوں جیسے کینسر‘ سانس‘ پھیپھڑوں اور دل کی بیماریاں‘ بلڈ پریشر وغیرہ علاج معالجہ پر حکومت اور عوام کا کہیں زیادہ سرمایہ لگ جاتا ہے۔ سگریٹ نوشی صرف بیماریوں اور اموات کا باعث نہیں بلکہ غربت کا سبب بھی ہے۔ ہمارے ملک میں سالانہ تین سو ارب روپے کی سگریٹیں پھونکی جاتی ہیں۔ یہ صرف امیر لوگ ہی نہیں خرچ کرتے بلکہ بیشتر رقم غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ دھویں میں پھونک دیتے ہیں۔ سگریٹ پینے کا عادی شخص روزانہ کم سے کم سو روپے اس پر خرچ کرتا ہے‘ اسکے بچے چاہے مناسب کھانے پینے‘ علاج معالجہ سے محروم ہی کیوں نہ ہوں۔ حکومت کو تمباکو نوشی اور تمباکو مافیا کو کنٹرول کرنے کے لیے وقتی فائدہ کی بجائے قوم کے وسیع مفاد کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ کیا پرہیز علاج سے بہتر نہیں؟ سب سے اہم‘ سیاسی جماعتوں اور افسر شاہی میں سگریٹ ساز اداروں کا گہرا اثر و رسوخ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑے بڑے افسروں کے بچے ان کمپنیوں میں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پاتے ہیں۔ افسران اور ان کی بیگمات انکے خرچ پر بیرونی دورے اور شاپنگ کرتے ہیں۔ صحت کے اعلی افسران ہر سال کروڑوں روپے اس بات کی رشوت وصول کرتے ہیںکہ سگریٹ کے صنعت کے خلاف پالیسیاں نہ بنیں اور اگر بن جائیں تو اُن پر عمل نہ ہو۔ اس پر ٹیکس کم رہے‘ جعلی سگریٹ سازی پر کریک ڈاون نہ ہو اور ٹیکس فری سگریٹوں کی اسمگلنگ جاری رہے۔ تمباکو نوشی سے متعلق معاملات پر حکومتی سطح پر موثر قانون سازی اور سخت عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت جتنی کوتاہی برتے گی صحت عامہ کے مسائل اتنے گھمبیر ہوتے جائیں گے۔