سبحان اللہ کیسی روشن زندگی گزار کر نعمت اللہ خان اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ وہ جسے نفس مطمنہ کہتے ہیں اور جس کے بارے میں قرآن کی گواہی یوں آتی ہے۔ اے اطمینان والی روح اپنے رب کی طرف لوٹ جا تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ 89برس کی طویل اور کامیاب زندگی مسلسل ریاضت اور جدوجہد میں گزاری ہوئی زندگی۔ اس ایک زندگی میں کامیابی کی کئی داستانیں موجود ہیں جن سے سیکھنے والے سیکھ سکتے ہیں۔ کراچی کے سابق میئر بابائے کراچی کے لقب سے نوازے گئے کہ انہوں نے ادھڑے ہوئے ‘بکھرے ہوئے ،روندے ہوئے کراچی کو اپنایا، اس کے زخموں پر مرہم رکھے اور اس کی ایسی رفو گری کی کہ انہیں بابائے کراچی کہا جانے لگا۔ کیسا شاندار اعزاز ایک بابائے قوم تھے اور نعمت اللہ خان بابائے کراچی۔ ایسے اعزاز دلوں کی سرزمینوں میں محبتوں اور عقیدتوں کے کھلیانوں سے پھوٹتے ہیں۔ خود سے کوئی لاکھ چاہے تو قائد اعظم ثانی نہیں کہلا سکتا۔ نعمت اللہ خان اس جہان سے جو سمیٹ کر لے گئے۔ وہ بھی تو آسانی سے کمایا نہیں جا سکتا۔ نعمت اللہ خان کی ترجیحات ‘مقاصد‘جدوجہد ‘پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسی زندگی گزاری جو ہمیں اقوال زریں میں جھلکتی اور اشعار کے استعاروں میں گونجتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم، یا پھر اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے، بچپن میں یاد کرائی ہوئی۔ہر سویر سکول کے میدان میں کھڑے ہو کر ہم جماعتوں کے ساتھ دھرائی ہوئی دعا۔’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘۔ ’’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘۔کتنے ہی روشن اور سنہرے اقوال میرے ذہن میں گونج رہے جو اس مرد خدا کی روشن زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ بات بدترین حالات میں مستقل مزاجی سے ڈٹ جانے کی ہو۔ مایوسی میں امید کی ہو۔ کرپشن اور بددیانتی کی تاریکی میں دیانت اور فرض منصبی کی ادائیگی کی ہو۔ نعمت اللہ خان کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔گاہے حیرت ہوتی ہے کہ اس کراچی کو جسے بھتہ خوروں ‘ہوس کے ماروں‘ظالموں اور قاتلوں نے اجاڑ کر رکھ دیا، کبھی نعمت اللہ خان جیسا شجر سایہ دار بھی میسر تھا۔ ایک مسیحا نفس جو اپنے شہر کے جسم پر لگے زخموں کو دھوتا‘ اس پر مرہم لگاتا اور اس کے لئے خواب دیکھتا تھا۔ پھر خوابوں کو تعبیر میں بدلنے کے لئے جت جاتا۔ کراچی کی قسمت پر حیرت تو ہوتی ہے کہ اسی شہر کو الطاف حسین بھی ملا اور حکیم سعید شہید اور نعمت اللہ خان جیسے مسیحا بھی۔ شاید قدرت کا یہی انداز کار ہے کہ وہ رات کی تاریکی کے ساتھ روشن دن کو رکھ دیتی ہے۔ رات کی تاریکی میں کہیں چراغ جل اٹھتا ہے۔ گدلے پانیوں میں کنول کھلتے ہیں ۔تباہی کے ملبے سے نئی تعمیر کا آغاز ہوتا ہے تو ایسے ہی نعمت اللہ خان کا وجود کراچی کے لئے تھا‘ جیسے کیچڑ میں کنول کھلا ہو‘پاکیزہ اور معطر!وہ کراچی جہاں سیاست کا بازار ہو یا انتظامیہ کا کاروبار‘ کرپشن اور بددیانتی کی ایک سے بڑھ کر ایک ہوشربا‘داستان سننے والوں کے ہوش اڑاتی ہو‘ وہاں سیاست کے بازار میں رہ کر نعمت اللہ خان صاحب نے جس مثالی دیانت سے اہل کراچی کی خدمت کی وہ ایک روشن مثال ہے۔ میئر کراچی کے طورپر ان کے کارہائے نمایاں کی فہرست طویل ہے اور ان دنوں انہیں یاد کرنے والے ان کی خدمات کو یاد کر رہے ہیں۔ صرف کراچی کے میئر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ممتاز انٹرنیشنل این جی او الخدمت کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی ان کی خدمت خلق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ آزاد کشمیر کے سرسبز مگر زلزلے سے اجڑے ہوئے شہر کی تعمیر ہو یا پھر تھر کے پیاسے بے آب و گیا صحرا میں ہزاروں کنویں کھدوانے کا معاملہ، اللہ کا یہ نیک بندہ ہر جگہ ایک جانباز سپاہی کی طرح کام کرتا ہوا دکھائی دیا۔کالم لکھتے ہوئے خیال آیا کہ کراچی کے مسیحائوں کا تذکرہ کرتے ہوئے میں ایدھی بابا کو کیسے بھول گئی جو کراچی شہر سے اٹھا اور پورے پاکستان کے لاوارثوں کا باپ بن گیا۔ خدمت خلق کے میدان میں ہمیں ایسے پاکستانیوں کی کئی روشن مثالیں مل جاتی ہیں جو ہمہ دیانت اور امانت کے جذبے سے سرشار صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے دن رات ضرورت مندوں اور کم وسیلہ ہم وطنوں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ لیکن سیاست کے میدان میں ایسے کردار کی مثال کم ہے جو نعمت اللہ خاں صاحب نے ہمارے سامنے پیش کی۔یہاں سیاست جھوٹ کا کاروبار ہے۔ خوش کن دعوے‘ وعدے، اونچے خواب‘بڑی امیدیں صرف عوام کو سبز باغ دکھانے کے لئے تقریروں میں استعمال ہوتی ہیں۔ عوام کے غم میں گھلنے والے‘ جونہی شہر اقتدار میں قدم رکھتے ہیں، ان کی زندگی کے فلسفے اور سوچیں جب اونچے خوابوں اور عظیم آدرشوں کی جگہ اپنے اقتدار کو طویل کرنے کی خواہش لے لیتی ہے تو عوام کا درد ہوا ہو جاتا ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے کے دعویدار اپنے درباروں میں کرپٹ مافیا کو بٹھا کر ان سے غریبوں کے مسائل کا حل پوچھتے ہیں۔ تاکہ تقریروں میں کچھ اور جھوٹ بولا جا سکے۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ جو بھی شہر اقتدار میں داخل ہوا‘ اس نے اپنی توانائیوں کو اپنے اثاثے بڑھانے پر صرف کیا۔ فرنٹ مین رکھے، منی لانڈرنگ کی ‘ بیرون ملک جائیدادوں پر جائیدادیں بنائیں۔لگژری فلیٹوں کی قطاریں، سوشل بینکوں میں خزانے اربوں کھربوں کے انبار لگائے بس یہی ان کی سیاست اور یہی ان کا طرز حکومت ہے۔ سیاست کے ایسے بازار میں نعمت اللہ خان کا وجود حیران ہی تو کرتا ہے۔ دیانت سے مرصع ‘ فرائض منصبی کی ادائیگی میں مگن،خدمت خلق میں پسینہ بہاتا۔ ایک مرد خدا! یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یار رب اپنی خاکستر میں تھی