سر زمین ڈیرہ غازی خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ ضلع چاروں صوبوں کے سنگم میں واقع ہونے کی وجہ سے ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔بلوچ سرداروں کی یہ سر زمین راجہ دلو رائے والی ہڑند ، جام پور کے زمانہ میں بھی آباد تھی۔ لیکن اِس کا نام ڈیرہ غازی خان نہیں تھا بلکہ یہ سارا علاقہ ایک طرف کو ہ سلیمان مشہور تھا تو دوسری طرف وادی ابا سین یعنی دریائے سندھ کے نام پر مشہور تھا ۔ لیکن اِس کو مرکزی حیثیت بلوچ سردار نواب حاجی خان دودائی (میرانی ) نے 1476ء میں اپنے بیٹے غازی خان کے نام پر دی اور یوں یہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے بسائی گئی ایک بستی ہوئی جس کو ڈیرہ غازی خان کا نام دیا گیا جو آج تک آبادہے ۔ قدیم ڈیرہ غازی خان کی 1909ء میں تباہی کے بعد موجودہ ڈیرہ غازی خان کی بنیاد انگریزوں نے رکھی اور پرانے نام پر ہی موجودہ شہر کو آباد کیا یہ شہر پچاس ہزار تک آبادی کے لیے بسایا گیا شہر کے بلاک وغیرہ قصبہ ڈیرہ غازی خان میں بنائے گئے جو آج تک ریونیو کے ریکارڈ میں قصبہ ڈیرہ غازی خان مشہور ہیں ۔ شہر کے ساتھ مانکہ کینال بنائی گئی تھی جس سے شہر کے نزدیک دیہی علاقوں کو فصلوں کے لیے پانی دیا جاتا تھا لیکن بعد میں محکمہ انہار کی عدم دلچسپی اور ڈی جی خان کینال کے بن جانے کی وجہ سے مانکہ کینال پر توجہ نہ دی گئی اور اِس نہر کو 1975ء میں مکمل طور پر بند کر دیا گیا جس سے پورے شہر کا پانی کڑوا اور نا قابل استعمال ہو گیا جوں جوں شہر کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا اس کے مسائل بھی بڑھتے گئے اور اب حالت یہ ہے کہ شہر کا کوئی کوچہ اور گلی ایسی نہیں رہی کہ جہاں پر گندگی کے ڈھیر نظر نہ آتے ہوں کارپوریشن کا عملہ صفائی اور مشینری کم ہونے کی وجہ سے شہر کی صفائی صحیح طرح سے نہیںکر پاتا تو دوسری طرف سول لائن یعنی جہاںپر انگریزوں ہی کے زمانے سے اعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں بنی ہوئی ہیں وہ علاقہ آج بھی صاف ستھرا ہے کیونکہ اعلیٰ افسران وہاں پر رہائش پذیر ہیں اس لیے وہاں پر دن رات صفائی ستھرائی ہوتی رہتی ہے اِس علاقہ سول لائن میں آفیسر کلب اور موجودہ نام جم خانہ کلب بھی کمشنر لیاقت علی چٹھہ کی نظر کرم سے بنا ہوا ہے ۔ اشرافیہ اور عوام کے د رمیان واضح فرق نظر آتا ہے۔ جم خانہ کلب کی انٹری فیس اتنی زیادہ ہے کہ سفید پوش آدمی سن کر ہی بے ہوش ہونے لگتا ہے لیکن امیروں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔چونکہ اب یہ جگہ مکمل طور پر اشرافیہ کا حصہ بن چکی ہے جس کے اندر سفید پوش اور غریبوں کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی افسوس کہ عوام کے ٹیکسوں پر حکومت کرنے والوں کو عوام کے مسائل نظر نہیں آتے شہر کی اب یہ صورتحال ہے کہ نا قص سیوریج لائنوں کی وجہ سے شہر کی تمام سڑکیں اچانک نیچے گرنا شروع ہو جاتی ہیں اور کئی مرتبہ شہری سڑک کے کسی حصہ کے اچانک بیٹھ جانے کی وجہ سے اپنی سواری سمیت گر کر زخمی ہو چکے ہیں لیکن کرپشن کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اِس وقت شہر کی تقریباً ایک لاکھ فٹ سوریج لائن نیچے سے تباہ ہو چکی ہے ۔ آج سے دس سال قبل 2012ء میں پبلک ہیلتھ والوں نے نا قص پائپ لائن ڈال کر اپنا فرض پورا کیا تھا اور اُس وقت کے ارباب اختیار نے کروڑوں روپے کمیشن کمایا تھا ۔ یہی حال دیگر ترقیاتی کاموں میں ہوا تھا۔ سڑکوں کی تعمیر بھی اُس دور میں ہوئی تھی جس میں نا قص میٹریل کے ساتھ اپنا ’’کمیشن ‘‘ بھی کھرا کیا گیا تھا۔ ہم نے اُس دور میں بھی اِس کرپشن کو عیاں کیا تھا جس پر کرپشن کرنے والوں کو زبردست تکلیف ہوئی تھی اور ہمیں ایک نوٹس بھی دیا گیا تھا لیکن سچائی کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے آج پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے شہر کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ حالیہ سال اگست میں آنے والے سیلاب کی تباہی کی وجہ سے بے گھر ہونے والے ا فراد کو ابھی تک حکومت کی طرف سے مکانات تعمیر کرنے کے لیے کوئی امداد نہیں دی گئی۔ سردیوں کے آنے کی وجہ سے یہ لوگ بہت مشکلات کا شکار ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ بے گھر ہونیو الوں کی طرف خصوصی توجہ دے اور اِن کی مالی امدادکر کے اُن کو گھر تعمیر کرنے میں مدد دی جائے ۔ اِن سیلاب متاثرین کے مکانات کی بحالی میں جمعیت اہل حدیث کے مرکزی ناظم اعلیٰ اور سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے اپنے دیگر اکابرین کے ساتھ مل کر کافی دلچسپی لی فاضل پور اور راجن پور کے مختلف علاقوں میں ایک سو سے زائد افراد کو مکانات تعمیرا کر کے دیئے جا رہے ہیں ۔جو ایک بہت ہی اچھی کاوش ہے ویسے بھی ڈاکٹر حافظ عبدالکریم مشکل کی اس گھڑی میں اپنے عوام کے ساتھ رہے اور اُن کی طرف سے امداد کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے دوسری طرف جماعت اسلامی ڈیرہ غازی خان کی طرف سے بھی سیلاب زد گان کی بھرپور امداد کی گئی اور ڈیرہ غازی خان کی بستی وڈانی میں درجنوں مکانات تعمیر کر کے دیئے گئے جن کی چابیاں گذشتہ روز جماعت اسلامی کے مرکزی امیر مولانا سراج الحق نے متاثرین میں تقسیم کی تھی ۔ اِن علاقوں میں شیخ عثمان فاروق اور جاوید اقبال بلوچ نے اپنا بھرپور کردار اداکیا اسی طرح تونسہ شریف کے نواحی علاقہ مکول کلاں میں بھی جاوید اقبال بلوچ کی خصوصی محنت سے کئی بے گھر لوگوں کو دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کیا گیا اِس وقت ارباب اختیار کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کے لیے فوری طور پر گھروں کی تعمیر شروع کرائیں تا کہ آنے والی سردیوں میں سیلاب متاثرین کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔