بھارت نے اپنے پائوں پر کلہاڑی مار دی ہے‘ بھارت سیاسی محاذ پر جتنا آج منقسم ہے‘ صرف اندرا گاندھی کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ کے موقع پر تھا‘ اس سے کبھی پہلے نہ بعد۔ کانگریس نے مودی کے اقدامات کو یکسر مسترد کیا۔ اس منافق جماعت کو مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں‘ وہ بھارتی سیکولرازم کو خطرے میں محسوس کر رہی ہے جو ہندو توا کاپُر فریب چہرہ ہے۔ جموں و کشمیر پر فوجی قبضہ کانگریسی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے دور میں ہوا اور سب سے زیادہ ہندو مسلم فسادات بھی نہرو اور ان کی پتری اندرا گاندھی کے عہد ستم میں ہوئے ‘بیس کروڑ سے زائد ہندوستانی مسلمان اپنے انجام سے خوفزدہ ہیں اور غیر ہندو اقلیتوں کو اپنی فکر پڑ گئی ہے‘ پاکستان کم از کم مسئلہ کشمیر پر متحد ہے‘ البتہ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے عوام کو بدترین صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے واضح لائحہ عمل دیا جا رہا ہے نہ اپنا کردار ادا کرنے کے لئے مؤثر ترغیب۔ کور کمانڈر کانفرنس میں فوجی قیادت نے آخری حد تک جانے کی بات کی اور قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے فیصلوں سے یہی عزم جھلکتا ہے مگر وزیر اعظم اور ان کی میڈیا ٹیم نے ابھی تک قومی ذرائع ابلاغ کو اعتماد میں نہیںلیا کہ وہ بھارت کی سیاسی ‘ابلاغی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنا بھر پور کردار کس انداز میں ادا کریں‘ وزارت خارجہ اور وزارت اطلاعات و نشریات بھی تاحال واضح لائن آف ایکشن دینے پر تیار نہیں حتیٰ کہ 14اگست کو یوم یکجہتی کشمیر اور 15اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا مگر کسی کو بتایا نہیں گیا کہ دونوں مواقع پر عوام کو کرنا کیا ہے؟۔ جلسے‘ جلوس نعرے بازی یا کچھ ٹھوس۔ سفارتی رابطے جاری ہیں مگر اپنے دوستوں سے توقع کیا کی جا رہی ہے؟ کیا فقط یہ کہ چین‘ سعودی عرب‘ ملائشیا‘ ترکی اور دیگر دوست ممالک بھارت پر دبائو ڈال کر مودی سرکاری کو آئینی ترامیم واپس لینے پر مجبور کریں یا جموں و کشمیر اور کنٹرول لائن سے فوج بلانے اور استصواب کا اہتمام کرنے کی آپشن دی جا رہی ہے جو موجودہ حالات کا تقاضا ہے۔ بھارت نے اپنے پائوں پر کلہاڑی مار کر پاکستان کو تاریخی اور سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ لوہا گرم دیکھ کر ضرب لگائے ‘یہ قوم کو متحد کرنے کی گھڑی ہے اور عالمی برادری کے ضمیر کو جگا کر کشمیریوں کے مصائب و آلام ختم ‘ انہیں آزادی سے ہمکنار کرنے کا لمحہ۔ یہ مواقع کسی قوم کو بار بار نہیں ملتے۔1970-71ء میں بھارت کو یہ موقع ملا ‘اس نے بھر پور فائدہ اٹھایا‘ اس وقت ہم نسلی‘ لسانی اور علاقائی اختلافات کا شکار تھے‘ سیاسی اور فوجی قیادت یحییٰ خان‘ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کی صورت میں اقتدار کی بھوکی‘مطلبی اور ناعاقبت اندیش تھی اور عالمی رائے عامہ تذبذب کا شکار،1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان میں فوج داخل کی تو پاکستان سینڈوچ بن گیا ایک طرف بھارت اور دوسری طرف اس کا فوجی اتحادی سوویت یونین ‘ یوں لگا کہ دونوں مل کر پاکستان کو دبوچ لیں گے‘ سوویت یونین کی تاریخ یہ تھی کہ وہ جہاں گیا وہاں رکا نہیں‘ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا‘ جنرل ضیاء الحق نے مزاحمت کا فیصلہ کیا تو ایک ساتھی نے کہا ’’ہمارے اقدام پر عالمی ردعمل کیا ہو گا ؟‘‘جواب ملا ’’جتنا کچھ ہم کریں گے اس کے مطابق عالمی سپورٹ ملے گی کم نہ زیادہ‘‘ باقی تاریخ ہے۔ پاکستان اگر غفلت‘ کاہلی اور بزدلی کا مظاہرہ کرتا تو ہم (خاکم بدہن) نہ جانے کس کے غلام ہوتے۔؟ 1947ء میں جموں و کشمیر کے شیخ عبداللہ اور پنجاب کے خالصہ رہنما مسٹر تارا سنگھ نے کانگریسی قیادت اور ہندو اکثریت کی مزاحمت کے بجائے ادنیٰ مفاد کو مقدم جانا‘ خود سپردگی کا فیصلہ کیا‘ قائد اعظم کی بات نہ مانی ‘کشمیری اور سکھ عوام آج تک اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں9/11کے بعد یہی معرکہ پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو درپیش تھا طاقت کے نشے میں چور حکمران نے عوام کو ایٹمی پروگرام اور مسئلہ کشمیر پر قومی مفاد کے تحفظ کا جھانسا دے کر امریکہ کے روبرو سرتسلیم خم کر دیا قوم ستر ہزار جانوں کی قربانی دے کر بھی کٹہرے میں کھڑی اپنی صفائیاںپیش کر رہی ہے پرویز مشرف کے گناہوں کی سزا جنرل ضیاء الحق کو بھگتنی پڑتی ہے جس نے سوویت یونین اور بھارت کو لوہے کے چنے چبوائے‘ ایٹمی پروگرام مکمل کیا اور امریکہ کو فاصلے پر رکھا۔ پاکستان میں مرعوب اور خوفزدہ طبقہ قوم کو معیشت کی بدحالی‘ سفارتی سطح پر مشکلات اور بھارت کی عسکری برتری کا احساس دلا کر یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ ہمارے پاس سفارتی بھاگ دوڑ کے سوا کوئی چارہ نہیں‘ زیادہ سے زیادہ ہم بھارت کو مزید آگے نہ بڑھنے اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں وہ بھی اس صورت میں کہ امریکہ دبائو ڈالے اور بھارت اس کی بات مان لے۔قوم مگر ایسا نہیں سوچتی ‘وہ اقبالؒ کی پیرو کار ہے اور قائد اعظمؒ کے اس فرمان سے متاثر’’مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا‘‘ ۔1971ء کے بدترین سانحہ کے بعد اس قوم نے انگڑائی لی اور صرف دس گیارہ سال بعد ایٹمی قوت بن گئی۔9/11کے بعد امریکہ اور بھارت کے مخاصمانہ طرز عمل سے شہ پا کر پاکستان کے ازلی مخالفین نے اندرون ملک یلغار کی‘ مولانا فضل الرحمن نے پارلیمنٹ ہائوس میں کھڑے ہو کر عسکریت پسندوں کے مارگلہ کی پہاڑیوں تک پہنچنے کی چتائونی دی اور بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ گئے‘ مگر خیبر پختونخوا ‘ بلوچستان اور شمالی و جنوبی وزیرستان کے تمام باغی بالآخر خاک چاٹنے پر مجبور ہوئے ‘بیشتر مر کھپ گئے باقی ع پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں بھارت نے بین الاقوامی معاہدوں کی ہمیشہ مٹی پلید کی‘ نام نہاد عالمی برادری کو ٹھینگا دکھایا اور انسانی حقوق کی پامالی میں جنوبی افریقہ کی گوری حکومتوں کو پیچھے چھوڑ دیا‘ سوڈان اور انڈونیشیا میں عیسائی اقلیت نے آزادی مانگی ‘انہیں مل گئی حالانکہ مشرقی تیمور اور دارفر سوڈان کا جزو لاینفک تھے ۔کشمیریوں کو سات لاکھ فوج دبا نہیں پائی اور عالمی برادری نے آج تک ان کی مدد نہیں کی ‘جرم ان کا صرف یہ ہے کہ وہ ’’پاکستان سے رشتہ کیا‘ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ کلمہ لا الٰہ الا اللہ سے جتنی چڑ بھارت کو ہے امریکہ اور یورپ کو اس سے کم نہیں ‘کشمیری عوام یہ قربانیاں پاکستان کی محبت میں دے رہے ہیں اور الحاق پاکستان سے کم پر راضی نہیں‘ مظالم کا شکار مسلمانوں کے حوالے سے اہل ایمان کے لئے خدائی حکم یہ ہے’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لئے گئے اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہماری طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے(سورۃ نسائ) بھارت نے دو قومی نظریے کو ہمیشہ یاد رکھا‘ بھارت کی ہٹلر صرف کشمیر کا نقشہ بدلنے کے درپے نہیں وہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے کشمیریوں کی نسل کشی کے بعد وہ فارغ بیٹھے گا نہ پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے مانتے ہیں نہ مودی اس مٹی کا بنا ہے۔ ہم کشمیریوں کے لئے نہ سہی اپنی آزادی‘ خود مختاری ‘عزت‘ ناموس‘ بقا اور استحکام کی خاطر اس جنگ کو آخری جنگ میں تبدیل کریں تو بات بنے گی ۔یہ کام مگر اس وقت ممکن ہے جب حکمران یکسو ہوں‘ قوم ان کی پشت پر اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ غالب۔ اب تک بھارت ہماری کمزوری کو اپنی طاقت میں بدلتا رہا‘ اب ہم اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھائیں گے۔ طاقت اور کمزوری‘ اکثریت اور اقلیت اور غربت و خوشحالی کے مادی پیمانوں کو روند کر اپنے اس عہد کی لاج رکھیں ہے جو کور کمانڈر کانفرنس اور قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں جھلکتا ہے۔ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کے حصول کیلئے آخری حد تک جانے کا عہد۔ قوم 27فروری کی طرح حکومت اور جذبہ جہاد سے سرشار مسلح افواج کے فیصلہ کن اقدام کی توقع لگائے بیٹھی ہے لیکن کچھ فرض قوم کا بھی ہے۔ وہ اپنا طرز عمل بدلے‘ ناجائز منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی‘ گراں فروشی‘ ٹیکس چوری اور قرض خوری کے مکروہ کلچر سے نجات پائے۔ بھارتی فلموں‘ ڈراموں اور موسیقی کا نشہ ترک کرے اور اتحاد و اتفاق سے سیسہ پلائی دیواربنے کہ خدانخواستہ ملک آزمائش سے دوچار ہو تو دفاع وطن کے تقاضے پورے کر سکے۔ عمران خان نے بائیس سال تک قوم کو دلیری‘ خودداری کا جو سبق دیا اس پر عمل کا وقت آ پہنچا قوم‘ حکومت اور فوج سب تاریخ کے روبرو سرخرو ہوں ؎ یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے