کرکٹ سے ا گرچہ دلچسپی نہیں۔ لیکن ملک کے طول وعرض میں پھیلی سرشاری کی کیفیت نے نہال کردیا ہے۔ہر پیر وجواں ایسا خوش مدتوں بعد دیکھا۔ میچ نہیں جیسے پاکستان جنگ میں فاتح قرارپایاہو۔ محض ایک کامیابی نے قوم کا اجتماعی مورال اس قدر بلند کیا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس قوم کو خوشی کی کوئی بڑی خبر نہیں ملی۔مسائل اور پے درپے ناکامیوں اور معاشی مجبوریوں نے ایسا جھکڑا کہ اجتماعی حوصلہ ہی شکستہ ہوگیا۔لوگ کامیابی کا تصور ہی بھول گئے۔ پاکستان کو ایک بڑا کک اسٹارٹ چاہیے۔ یعنی ایک دھکا پھر یہ سر پٹ دوڑ پڑے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے دانشوروںاور سیاستدانوں کی ایک پوری نسل مسلسل مایوسی اور ناامیدی پھیلاتی ہے بلکہ ان کا کاروبار اور روزگار اندھیرے پھیلانے اور نئی نسل کو مستقبل سے مایوس کرنے ہی سے پھلتاپھولتاہے۔وہ پہلو جن سے امید پیدا ہو اور قوم کو حوصلہ ملے،عمومی طور پر زیربحث نہیںآتے۔ چنانچہ ہر تیسرا شخص ملک کے مستقبل سے مایوس اور ناامید نظر آتاہے۔مایوسی کا ماحول ان شہریوں کو بھی منفی سرگرمیوں میں الجھا دیتاہے جو ملک کے لیے کچھ کرگزرنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پروپیگنڈا اور مایوسی پھیلانا باقائدہ ایک سائنسی شعبہ بن چکا ہے بلکہ کہنا ہے کہ ایک آرٹ ہے۔ اس موضوع کے ماہرین پائے جاتے ہیں جو بہت تحقیق کے بعد ہر ملک اور قوم کے لیے حکمت عملی وضع کرتے ہیں جو ان ممالک کو تیزی کی پٹری سے اتار دیتی ہے۔پاکستان بھی روزاوّل سے عالمی طاقتوں اور پڑوسی حریف ملک کے نشانے پر ہے کیونکہ پاکستان ان کے ایجنڈے پر چلتاہے اور نہ ان کی من مانی قبول کرتاہے۔ 1965تک پاکستان کا شمار تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں ہوتاتھا لیکن اس کے بعد پاکستان مسلسل بحرانوں کی زد میں رہا۔بے شمار کتابیں چھپ چکی ہیں جو بتاتی ہیں کہ کس قدر حکمت سے ترقی کرتے ہوئے پاکستان کو جنگ اور داخلی سیاسی بحران میں الجھایا گیا۔مشرقی پاکستان میں مرکز گریز قوتوں کو بھرپور سیاسی او رمعاشی کمک پہنچائی گئی۔ علیحدگی پسندوں کا امیج بنایا گیا۔ شیخ مجیب الرحمان کو ایک انقلابی رہنما کے طور پر تراشہ گیا۔اس کام کے پیچھے بھاری غیرملکی سرمایہ کاری اور ذہن ترین دماغ کارفرماتھے۔حتیٰ کہ پاکستان دولخت ہوگیا۔اس کے بعد بھی چین نصیب نہ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی تاکہ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنایاجاسکے۔ ان کا یہ جرم انہیں پھانسی کے پھندے تک لے گیا۔بھٹو مرحوم کو کس طرح خوف زدہ کیا گیا ۔ خود بھٹو نے اپنی کتاب اگر مجھے قتل کردیا گیا میں تفصیل سے لکھاہے۔ پاکستان کے جوہری پروگرام نے اسے ناقابل تسخیر تو بنادیا لیکن سیاسی اور معاشی عد م استحکام مسلسل جاری رہا۔حالانکہ جوہری طاقت بننے کے بعد پاکستان کو معاشی طاقت بن جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔کچھ ایسا ماحول پیدا کردیا گیا کہ جو ملک بے سروسامانی کے باوجود ایٹمی قوت بن سکتاہے وہاں بجلی کا بحران پیدا ہوگیا۔ جو ملک دنیا کی ساتویں بڑی فوجی قوت ہے وہ غذایت کے مسائل کا شکار ہے۔ہر روز نت نئے مسائل پہاڑ کی طرح سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔جو نوجوان نسل کے حوصلوں کو پست کرتے ہیں اور انہیں مثبت طرزفکر اپنانے پر آمادہ نہیں کرتے۔ کرکٹ اگر چہ ایک کھیل ہے۔ ہار اور جیت اس کا لازمی حصہ ہے لیکن اس کے باوجود جس طرح پوری قوم میں حوصلہ پیدا ہوا۔لوگوں نے خوشیاں منائی۔ پاکستا ن سے محبت کا اظہار کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس ملک کو مسلسل چھوٹی یا بڑی کامیابیوںکی مسلسل ضرورت ہے تاکہ نا امیدی یقین میں بدلے۔ لوگوں کو اپنے محفوظ مستقبل پر یقین ہو۔ بہت سارے میدان ایسے ہیں جہاں پاکستان دوسرے بہت سے ممالک سے آگے ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیرممالک کی رہنمائی کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن اس کے باوجود میڈیا پر ان کامیابیوں کا چرچا نہیں ہوتا۔غیرملکی میڈیا کا خیر ذکر ہی نہیں وہ عمومی طور پر ان پہلوؤں کو زیادہ اجاگر کرتا ہے جو ہماری منفی شبہی ابھارتاہے۔گزشتہ چند دنوں سے پورا ملک جام ہے۔ ٹریفک بند ہے۔ ایک گروہ کے کچھ مطالبات ہیںجو وہ منوانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہاہے ۔لیکن دنیا میں یہ تاثر جارہاہے جیسے کہ سارا پاکستان ایک گروہ نے بند کردیا ہے۔ حکومت بے بس ہوچکی ہے اور انتظامیہ جواب دے گئی ہے۔ اس طرح کے ماحول میں سرمایاکار بھاگ جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے دوست ممالک اور بیرون ملک آباد پاکستانی بھی ملکی سفر سے کترانے لگتے ہیں ۔ ان کی نئی نسلیں جو جدید مہارت اور بے پناہ سرمائے سے لیس ہیں پاکستان کا رخ کرنے کے بجائے ترکی، دوبئی اوربنگلہ دیش جیسے ممالک کو سرمایاکاری کے لیے ترجیح دیتی ہیں ۔ سیاحت کے حوالے سے حکومت بڑے منصوبے بنارہی ہے اور نئے نئے سیاحتی مقامات کو دریافت اور ڈولپ کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ یہ ساری سرگرمیاں بے وقت ہوجاتی ہیںکیونکہ سیاح صرف ان ہی ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں امن ہوتاہے۔ سہولتیں ہوتی ہیں۔ خطرات لاحق نہیں ہوتے۔ ماحول دوستانہ ہوتاہے۔ ایسے مظاہروں اور احتجاج کو کنٹرول کرنا ہوگا جو کاروبار زندگی معطل کرتاہو۔ روزگار کو متاثر کرے۔ خاص طور پر علما اورسیاسی جماعتوں کے درمیان ایک ایسے میثاق کی ضرورت ہے جس میں یہ طے پائے کہ جلسے اور جلوس سب کچھ ہوگا لیکن معمول کی زندگی رکے گی نہیں۔دنیا بھر میں کہیں بھی سیاسی سرگرمیاں یا عوامی اجتماعات پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاتی لیکن ان کی حدود وقیود ضرور طے کی جاتی ہیں۔پاکستان میں بدقسمتی سے ابھی تک احتجاج کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا جاسکا۔ اسی لیے جس کا دل کرتا ہے وہ سڑک بند کردیتاہے اور سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچا دیتاہے۔انتظامیہ یرغمال بن جاتی ہے۔ اور دنیا ہمارا تماشا دیکھتی ہے ۔ ضرور دل ہی دل میں کہتی ہوگی کہ اس قوم کو دشمنوں کی ضرورت نہیںہوتی جو خودہی اپنے مستقبل کو آگ لگانے پر تل چکی ہو۔ اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو اس سلسلے کو روکنا ہوگا۔ یہ صرف تحریک انصاف کا مسئلہ نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔