دیکھئے ڈاکٹر خورشید رضوی نے حیات و موت کے طویل فلسفے کے سمندر کو اپنے ایک شعر کے کوزے میں کس خوبصورتی کے ساتھ بند کیا ہے: نہ جانے کب نہ رہیں ہم ہمیں غنیمت جان حیات و موت میں کچھ ایسا فاصلہ بھی نہیں یوں بھی موت زندگی کے تسلسل کا دوسرا نام ہے یا آسان الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیںکہ موت زندگی کے دوسرے فیز کا نام ہے مرشد اقبال نے حیات ابدی و سرمدی کی حقیقت کو شعر کے پیرھن میں یوں سمویا ہے: مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں جناب احمد ندیم قاسمی نے بھی زندگی کے تسلسل کو کتنی شعری مہارت اورحلاوت کے ساتھ بیان کیا ہے: کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا میرے نہایت عزیز ذدوست پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین صرف تین چار روز پہلے سرتاپا حقیقت تھے اب کہانی ہو گئے۔ ہماری ظاہر بیں نگاہوں کے حساب سے تو وہ وادی موت میں چلے گئے ہیں مگر دراصل وہ حیات ابدی کے مسلسل بہتے ہو بحر بیکراں میں اتر گئے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین ملک کے ممتاز یورالوجسٹ تھے۔ انہوں نے مسلسل نصف صدی تک مریضوں کی مسیحائی کی۔ وہ میوہسپتال کے یورالوجی وارڈکے سربراہ تھے وہ لاہور جنرل ہسپتال کے کئی برس تک ڈائریکٹر رہے اور کچھ مدت کے لئے کنگ ایڈورڈ کالج کے ایکٹنگ پرنسپل بھی رہے۔ یہ دنیاوی عہدے اور رتبے تو اہل دنیا کے لئے ان کی شناخت تھی مگر جس ڈاکٹر سجاد حسین کو ہم بچپن سے جانتے ہیں اس کی شناخت کے بہت سے اور پہلو ہیں۔ ڈاکٹر سجاد حسین کی زندگی جہد مسلسل کی طویل داستان ہے یہاںہماری نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ سجاد کے والد صاحب پولیس اے ایس آئی تھے۔ مگر وہ دوسرے تھانیداروں سے یکسر مختلف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ سجاد زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرے‘ اہل علم و فضل کی مجالس میں کسب فیض کرے اور علم کے ساتھ ساتھ ادب کے قرینوں سے اپنی زندگی کو زینت بخشے ۔ اپنے محدود وسائل کے باوجود سجاد کے والد نے ان کے لئے ایک ایسے اتالیق کا بندوبست کیا کہ جو بھلوال میں معلم تھا مگر اس کا بسیرا سجاد کے گھر پر ہی تھا۔سجاد ہمیں بتایا کرتا تھا کہ رات دو اڑھائی بجے ریل گاڑی ان کے گھر کے سامنے سے گزرتی تو اس وقت استاد محترم خود بھی جاگ جاتے اوراپنے ہونہار شاگرد کو بھی جگا دیتے۔ سجاد حسین نے ایف ایس سی گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کی اور کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے ایم بی بی ایس میں کامیابی حاصل کی۔ سجاد نے میوہسپتال میں ہی ہائوس جاب کیا اور وہیں یورالوجی وارڈ میں رجسٹرار کے عہدے پر فائزہو گیا۔ رجسٹرار کا رتبہ ایک ینگ ڈاکٹر کے لئے بڑا پرکشش رتبہ ہوتا ہے مگر اقبال کا روحانی شاگرد ہونے کے ناتے سجاد کو اپنی منزل آسمانوں میں دکھائی دی تھی برطانیہ جا کر ایف آر سی ایس کی ڈگری کا حصول اس کی پروفیشنل ضرورت بھی تھی اور اس کی دلی خواہش بھی۔ ہم سب دوستوں کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا سجاد کے وسائل انتہائی محدود تھے مگر سجاد نے وسائل کی قلت کو اپنے ارادوں کی وسعت کے راستے میں حائل نہ ہونے دیا۔اس نے چند ماہ کے لئے سعودی عرب کی وزارت صحت کے ایک ہسپتال میں ملازمت کی۔ مختصر ساز زاد سفر اکٹھا کیا اور برطانیہ کی راہ لی۔ ڈاکٹر سجاد ہر مرحلے پر ایک ہونہار شاگرد تھا۔ اس زندگی کا ماٹو یہ تھا کہ: ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں میو ہسپتال میں عالمی شہرت یافتہ یورالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر فتح خان اختر اس کے استاد اور مربی تھے، ان کے ہی زیر سایہ سجاد نے سرجری کی تربیت حاصل کی۔ ڈاکٹر فتح خان فخریہ کہا کرتے ہیں کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم نے کون کون سے شاگرد اس شعبے میں پیدا کئے ہیں تو میرا جواب ہو گا کہ میرے شاگردوں میں سرفہرست ڈاکٹر سجاد حسین ہے۔ ممتاز یورالوجسٹ اورسندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی کے سربراہ ڈاکٹر ادیب رضوی ڈاکٹر سجاد حسین کے مداحوں میں سے ہیں۔ ابھی چار پانچ ہفتے قبل جب ڈاکٹروں نے سجاد حسین کو ڈائیلاسز پر جانے کا مشورہ دیا تو وہ سیدھا اپنے استاد محترم ڈاکٹر فتح خان اختر کے پاس پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب یہ خبر سن کر بہت افسردہ ہوئے مگر انہوں نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اس موقع پر سجاد کو جو ہدایت کی وہ اس کے لئے ایک گراں قدر اثاثہ اور قابل افتخار سرمایہ تھی۔ انہوں نے فرمایا سجاد ڈائیلاسسز نہیں کروانا۔ تم سیدھے ڈاکٹر ادیب رضوی کے پاس چلے جائو اسے میرا پیغام دو کہ وہ تمہارا گردہ ٹرانسپلانٹ کرے اورانہیں یہ بتائو کہ خود ڈاکٹر فتح خان اختر اپنا گردہ سجاد کے لئے ڈونیٹ کریں گے۔ ایک شاگرد کی اس سے بڑی پذیرائی کیا ہو گی کہ اس کا استاد اس کے لئے محبت و شفقت کے یہ جذبات رکھتا ہو۔ ڈاکٹر سجاد کے ملک کے اندر اور باہرہزاروں شاگردوں اور دوستوں کا وسیع حلقہ تھا۔مہمان نوازی ان کا خاص وصف تھا۔ صرف چار پانچ ہفتوں میں ایک حوصلہ مند سرجن اور ایک خلیق مسیحا پر بیماریوں نے پے درپے حملے کئے مگر اس نے بیماری کے ہر وار کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ اگرچہ ڈاکٹر سجاد زمانہ طالب علمی میں لاہور آ گیا۔ بعدازاں میں بھی پنجاب یونیورسٹی آ گیا مگر اس کا بے تکلف حلقہ دوستاں سرگودھا میں تھا۔ ہم سب کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ڈاکٹر خورشید رضوی تب گورنمنٹ کالج سرگودھا میں پروفیسر تھے۔ وہ 18برس تک سرگودھا میں مقیم رہے۔ سجاد بھی ڈاکٹر خورشید رضوی کے ارادت مندوں میں شامل تھا۔ اس حلقہ دوستاں میں ہر ستارہ ہی درخشندہ ستارہ تھا۔ ان میں حافظ محمد سعید ایڈووکیٹ‘ فاروق گیلانی‘ سید رضی حیدر‘ ڈاکٹر خالد رشید‘ نوید آفتاب‘ بریگیڈیئر مختار‘ خالد اقبال یاسر‘ مقصود احمد مسعود اور راقم الحروف شامل تھے۔ڈاکٹر خورشید رضوی کے علاوہ پروفیسر غلام جیلانی اصغر کی ادبی و علمی محبت ہمیں میسر آئی۔سرگودھا کی یہ مجلسی و تہذیبی تربیت ساری زندگی ہم سب کے بہت کام آئی۔ بالخصوص ڈاکٹر سجاد نے اس تربیت کواپنی طبیعت کا غالم پہلو بنا لیا۔ ڈاکٹر سجاد نے تقریباً پچاس برس تک پاکستان میں خدمت خلق کی۔ اللہ نے اسے سچی خیر خوہی کا جذبہ عطا کیا تھا۔ وہ کسی بھی انسان کی تکلیف دیکھ کر بے چین ہو جاتا اور ہر قسم کے مادی مفادات سے ماورا ہو کر اس کی مسیحائی کے لئے ہر ممکن جتن کرتا۔ وہ ہر دوست کے گھروالوں کے علاج معالجے میں بھر پور تعاون کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتا۔ ڈاکٹر سجاد اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں ڈاکٹر عفت جیسی شریک حیات ملیں جنہوں نے میاں کے ساتھ مل کر بچوں کی بہت اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر سجاد کی بیٹی ڈاکٹر سارہ نے آغا جان میڈیکل یونیورسٹی کراچی سے ایم بی بی ایس پاس کیا اور اب وہ امریکہ میں ڈاکٹر ہیں۔ جب کہ ان کے پانچ صاحبزادوں میں سے چار اعلیٰ عہدوں پر ملک کے اندر اور باہرفائز ہیں۔اہل علم کے نزدیک موت کے بعد نئی زندگی میں گو دنیاوی جسم سے تو جدائی حاصل ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود عقل و شعور زندہ رہتا ہے گویا وہ شخصیت ایک نئی صورت میں زندگی پا لیتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ان کی نئی زندگی پہلی زندگی سے کہیں حسین تر ہو۔ اللہ ان کی خدمت خلق کو شرف قبولیت بخشے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔آمین