شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے حوالے سے دنیا بھر میں تقریبات ہوتی رہتی ہیں مگرجرمنی میں مقیم معروف شاعر،ادیب اور صحافی سیّد اقبال حیدر نے انہیں انوکھے انداز سے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا ۔ یہ تقریب جرمن شہر ہائیڈل برگ میں دریائے نیکر کے کنارے خوبصورت پارک کے اس حصے میں منعقد ہوئی جہاں علامہ اقبال کا قیام تھا اور وہ اکثر فرصت کے لمحات وہاں گزارتے تھے۔ ہمارے بہت پیارے دوست، دانشور، شاعر، مصنف سید حسنین بخاری نے بطور خاص پاکستان سے اس تقریب میں شرکت کی۔ انہوں نے علامہ اقبالؒ کی نسبت سے تقریب کے انعقاد کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہائیڈل برگ میں شاعرِ مشرق نے اپنے قیام کو زندگی کے خوبصورت لمحات سے تعبیر کیا ۔ تقریب میں ہونے والے مشاعرے میں انہوں نے اپنا کلام بھی سنایا۔بزم اقبال کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے راقم الحروف کو بہت مسرت ہوئی کہ جرمنی میں علامہ اقبال کے اعزاز میں ایسی شاندار تقاریب کا انعقاد ممکن ہوا۔ بخاری صاحب نے فکر اقبال کے فروغ میں بزم اقبال کے شاندار کردار کی بہت تعریف کی۔ راقم الحروف نے اقبال بارے ایک کتاب بھی دی جو انہوں نے جرمنی میں ایک ادارے کو عطیہ کر دی۔ جناب سید حسنین بخاری اپنے مقالے میں لکھا’’ گوئٹے کے دیس جرمنی، اقبالؒ کی دھرتی اور ان کے فرزندوں کے درمیان مشترک فکری, تہذیبی و ثقافتی اقدار کو قائم رکھنے اور بڑھانے کی ضرورت ہے‘‘۔ میری معلومات کے مطابق ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اقبالؒ چیئر ہوتی تھی جہاں کوئی نہ کوئی ماہر, اقبالیات مستقل تعینات ہوتا ہے لیکن ایک عرصے سے یہ خالی ہے۔ اسی طر ح پاکستان کے تہذیبی وثقافتی شہر لاہور میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ ہوتا تھا جو دوممالک کے درمیان ایک پل کا کام کرتا تھا۔ مجھے بھی اس کے علمی و ادبی ماحول سے مستفیض ہونے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی دور میں، میں نے تین نظمیں مندرجہ ذیل عنوانات سے لکھیں۔ اے جرمنی کی مٹی، اقبالؒ اور گوئٹے کے درمیان مکالمہ، گوئٹے انسٹیٹیوٹ لاہوربند ہونے پر اقبالؒ کا جرمن قوم سے خطاب۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ لاہور کچھ عارضی وجوہات کی بنا پر بند کردیا گیا تھا جس کو از سر, نو کھولنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے جرمن مہمان, خصوصی محترمہ کلوڈیا کرامت شیک صاحبہ انچارج کلچرل ڈیپارٹمنٹ ہائیڈل برگ , برلن میں تعینات پاکستانی سفیر اور فرینکفرٹ میں تعینات پاکستانی کونسل جنرل سے درخواست کی کہ وہ ہائیڈل برگ میں اقبالؒ چیئر کے احیاء یا اقبالؒ گوئٹے فورم ہائیڈل برگ کے قیام اور گوئٹے انسٹیٹیوٹ لاہور کے از سر, نو قیام کا معاملہ اپنی اپنی حکومتوں سے حل کروائیں کیونکہ یہ دونوں ممالک کے تہذیبی و ثقافتی تعلقات کے اِستحکام کے لئے نہایت ناگزیر ہے۔ اگر جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کے شاندار ہائیڈل برگ کیسل سے تھوڑا آگے جائیں تو نیوئن ہیم میں پرانی عمارت پر ایک تختی نظر آئے گی جس پر لکھا ہے: "پاکستان کے قومی فلسفی، شاعر ڈاکٹر محمد اقبال 1907ء میں یہاں قیام پذیر رہے۔" اقبال نے پی ایچ ڈی مقالہ تحریر کرنے کے لیے جرمن زبان سیکھنے کے لیے ہائیڈل برگ میں چھ ماہ قیام کیا تھا۔ان کی نظم ایک شام دریائے نیکر ہائیڈل برگ کے کنارے، میں ہی لکھی گئی تھی۔ ایک قریبی پارک میں خزاں کے پتوں سے ایک تختی ڈھکی ہوئی تھی جس پر یہ نظم جرمن زبان میں تحریر تھی۔ اقبالؒ کا انتخاب ہائیڈل برگ، جرمنی کا علم و عرفان کا وہ شہر ہے جہاں جرمنی کی سب سے پہلی اور قدیم یونیورسٹی موجود ہے، جو 1386 میں قائم ہوئی تھی۔ اس شہر کا ایک اور عالمی اعزاز یہ ہے کہ اس کے 8 باشندوں کو امن کا عالمی نوبل پرائز بھی مل چکا ہے۔ اقبالؒ نے وہاں قیام کے دوران فلسفہ اور اپنی فکر و سوچ کے علاوہ شاعری سے جرمن قوم کو بہت متاثر کیا تھا۔ مفکر پاکستان نے اردو ادب کو ’’جاوید نامہ ‘‘اسی دریا ئے نیکر کے کنارے بیٹھ کر دیا۔ انہی رومان پرور کناروں پر بیٹھ کر اک نظم ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے) لکھی تھی، جس کا جرمن زبان میں ترجمہ کرکے اس کو یادگاری کتبے پر لکھ کر وہیں نصب کیا گیا۔اس دریا کی قریبی سڑک کو اقبالؒ کے نام سے منسوب کرکے اقبالؒ کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ یہ اقبالؒ اوفر کے نام سے مشہور ہے۔ ان کی اس رہائش گاہ کو شہر کی پارلیمنٹ 1969ء میں ایک یادگار ورثہ قرار دے چکی ہے۔اسی طرح حکومت پاکستان نے لاہور میں ایک سڑک کو ’’ خیابان, انا میری شمل‘‘ کا نام دے کر جرمنی اور جرمنوں سے اپنے دل و روح کے گہرے روابط کا ثبوت دیا ہے۔ اقبال جرمن ثقافت پسند کرتے تھے مگر انہوں نے کبھی خود کو اس میں نہیں ڈھالا۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک جرمن ملازمہ رکھی، مگر ان کی پرورش قدامت پسند انداز میں کی گئی۔ اقبال جرمن ادب اور ثقافت کی اس گہرائی میں نہیں اترے تھے جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی استاد کی قدامت پرستی کی وجہ سے انہوں نے اپنے زمانے کی رومانویت کا اثر زیادہ قبول کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ جرمنی سے علامہ اقبالؒ کے لگائو اور محبت کی اصل وجہ، جرمن افکار، شاعری اور سب سے زیادہ گوئٹے سے گہری عقیدت تھی۔ علامہ اقبالؒ کا کہنا تھا کہ گوئٹے صاحب کتاب تھے اور یہ کتاب ان کی تخلیق ’’فاوسٹ‘‘ ہے۔ علامہ اقبالؒ گوئٹے کا موازنہ غالب سے کرتے تھے اور اقبالؒ کی مشہور فارسی نظم ’’پیام مشرق‘‘ کا محرک ، گوئٹے کا دیوان غربی و شرقی ہے، جو اقبالؒ کی نظر میں مشرق کے نام گوئٹے کا گلدستہ عقیدت ہے اور یوں گوئٹے نے جرمن ادبیات میں عجمی روح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ٭٭٭٭٭