یاد کی ایک پرچھائیں ہے جوسدا ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ کوئی موسم وصل و ہجر کا۔ زندگی کی سڑک کے کنارے لگے سائن بورڈ پر دکھ لکھا ہو، خوشی لکھی ہو یا وہی بے نام سی اداسی۔ یاد کی یہ پرچھائیں ہاتھ پکڑے اٹھتی ہے۔ کبھی کبھی دکھ میں ڈھارس دے جاتی ہے۔ خوشی اور کامیابی کے لمحوں میں آنسوبن کر بہنے لگتی ہے اور دنیا کی اس بھیڑ میں اپنی ’’کمی‘‘ کا احساس دلا کر اداسی کی زرد اوڑھنی کو اور بھی زرد کردیتی ہے۔ پھر آس پاس ایک میلہ بھی لگا ہوتو سب خالی خالی سا لگتا ہے۔ سچ ہی کہا ہے کہ ہم رفتگاں کو اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں اور اگر رفتگاں میں جانے والی ہستی ماں کی ہو تو پھر ناممکن سی بات ہے کہ ماں کی یاد کو بھلایا جا سکے۔ وہ جاتے ہوئے اپنا عکس بچوں میں چھوڑ جاتی ہے۔ اس کی محبت کی طاقت کو موت بھی شکست نہیں دے سکتی۔ اس دنیا میں آنکھ کھولنے سے پہلے میں ماں کے وجود کا حصہ تھی اور اب میری ماں دنیا سے جانے کے بعد میری ذات کا حصہ بن چکی ہے۔ میں سارا سال، یاد کی اس راہ گزر پر چلتی رہتی ہوں، محبت کی یہ دنیا بڑی ہی انوکھی ہے جوہر کسی کو دکھائی اور سنائی نہیں دے سکی۔ یہ راز و نیاز اور محبت کے بھید وہی جانتا ہے جو اس سے گزر رہا ہو۔ یاد کی اس راہ گزر پر چلتے چلتے بالآخر وہ دن آ جاتا ہے جب تقدیر نے زندگی کا سب سے بڑا ہجر ہماری قسمت میں لکھا تھا۔ ہائے ستانوے کا وہ دسمبر۔ جس کا آغاز ہی جان لیوا تھا۔ یکم اور 2 دسمبر کی درمیانی رات ہماری جنت ہم سے روٹھ گئی تھی۔ ہجر کی بات پرانی ہے/موت تو سب کو آنی ہے/لیکن زیست سمندر میں تیرے ایک بچھڑنے پر/آج تلک حیرانی ہے!! اس دکھ نے پھر زندگی میں خوشی غمی، سود وزباں، غم و راحت کے پیمانے نئے سرے سے ترتیب دیئے۔ یہ دکھ زندگی کے میلے سے کسی کا محض چلے جانا نہیں تھا۔ ماں کی جدائی ایسی تھی جس کے چاک پر گھومتے گھومتے ہماری زندگیوں کے برتن نئے سانچوں میں ڈھلے۔ زندگی یقینا وہ نہیں رہی جو امی جان کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ میں اکثر سوچتی ہوں اگر ماں اتنی جلدی ہمیں چھوڑ کر جاتی تو کیا زندگی کے عنوان اور طرح سے لکھے جاتے۔ میں جواب ہوں ویسی نہ ہوتی۔ ماں کی جدائی نے میرے احساس کو ایسا سیراب کیا کہ پھر اس پر نظمیں کاشت ہونے لگیں، شعر اگنے لگے اور غزلیں لہلہانے لگیں۔ ہر تخلیق کا منبع شدید اور گہری اداسی ہوتی ہے، میں بھی اگرچہ پہلے ٹوٹے پھوٹے شعر کہتی اور نظمیں لکھتی تھی لیکن پھر بعد میں تو یوں لگا کہ زندگی کی ساری اداسیاں اس ایک ہجر سے بھی پھوٹتی ہیں۔ حامد سراج میا کو پڑھتے ہوئے لفظ آنسوئوں میں دھندلانے لگتے ہیں جو ماں سے بچھڑنے کا دکھ سہہ چکا ہو، آس کو اس طویل نظم کی سطر سطر میں اپنے غم کے عکس دکھاتی ہیں اور پھر مائیں تو ہوتی ہی سانجھی ہیں۔ ان کے بچھڑنے کا غم بھی سانجھا ہوتا ہے۔ کسی جگہ جانا ہوا وہاں مجھے ایک سو چار سالہ اماں جی ملیں۔ طویل العمر کی مشقت سے درماندہ صرف جسم ہی نہ تھا ذہن اور یادداشت بھی اس کے زیر اثر تھی۔ اپنا نام بھی بھول چکی تھیں ماضی کی باتیں مگر بڑے شوق سے سناتیں، اپنی ماں کے ذکر پر ان کی آواز رندھ گئی اور چہرے کی جھریاں آنسوئوں سے گیلی ہو گئیں۔ کہنے لگیں، ماواں ٹھنڈیاں چھاواں، ماواں فیر نئی لبھدیاں اور میں حیرت زدہ ان کو دیکھ رہی تھی کہ ایک صدی سے اوپر عمر سے خود دادی پڑدادی بن چکی ہیں۔ نام تک اپنا بھول چکا لیکن نہیں بھولی تو اپنی ماں۔ ہائے کیا ہوتی ہے کہ بھولتی ہی نہیں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے لیکن اپنے بچوں کے دل کی مکین بن کر ہر پل ان کی زندگی میں شریک رہتی ہے۔ اللہ سب بچھڑنے والی مائوں کو خاتون جنتؓ کی کنیزوں میں شامل فرمادے۔ آمین۔ ماں کو بچھڑے کتنے برس ہو گئے مگر آج بھی دسمبر کا آغاز ہوتا ہے تو اس کی یخ بستہ ہوائوں میں اسی ہجر کی چاپ سنائی دیتی ہے اور دل ایک زرد اداسی کی لپیٹ میں آ گیا، بوجھل بوجھل سا رہتا ہے۔ دل بوجھل ہوتا ہے تو ماں کی یاد کو آنسوئوں اور نظموں کا نذرانہ دے دیتے ہیں۔ ان کے ایصال ثواب کے لیے مغفرت کی دعائیں، صدقہ و خیرات کر کے دلی سکون ملتا ہے۔ آج نومبر کا آخری دِن ہے جس روز کالم چھپے گا دسمبر کی پہلی تاریخ ہو گی۔ سال کا آخری مہینہ ہونے کے ناتے دسمبر یوں بھی اداسی میں لپٹا ہوتا ہے عرش صدیقی کی صدا۔ اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے بھی ہمارے آس پاس گونجتی رہتی ہے۔ ہر شخص میں اپنا اپنا دسمبر سانس لیتا ہے۔ میں نے یہ شعر اپنے دسمبر کے لیے ۔ قدیم یاد کے غم سے بھرا بھرا سا دِن سوائے ہجر میں یوں تھا گھلا ہوا سا دِن سفید دُھند کی انگلی پکڑ کے اترا تھا ردائے اشک میں لپٹا بجھا ہوا سا دِن پرانے گھر کے درو بام یاد آتے ہیں کسی وجود سے مہکا سجا ہوا سا دِن وہ مہربان سی آنکھوں کے کاسنی سائے وہ چھائوں بانٹتے لہجے میں بولتا ہوا دن اک انہماک، وظائف،نمازِ عصر کے بعد وہ آیتوں کی تلاوت میں جاگتا ہوا دن ماں کی یاد ایک ایسی پر چھائیں ہے جو سدا ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ زندگی کی سڑک کے کنارے لگے سائن بورڈ پر دُکھ لکھا ہو، خوشی لکھی ہو یا وہی بے نام سی اداس… یاد کی یہ پرچھائیں ہاتھ پکڑے رہتی ہے۔ ساتھ ساتھ رہی ہے۔ دکھ میں ڈھارس دیتی ہے اور خوشی میں آنسو بن کر بہنے لگتی ہے!