وہ 1970ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد روزنامہ آزاد سے بحیثیت سب ایڈیٹر منسلک ہوا، میری اس سے پہلی ملاقات بھی آزاد میں ہی ہوئی، وہ خوبصورت شعر کہنے والا آزاد منش اور درویش شخص تھا، عمومآ کرتا پاجامہ پہنتا، حس مزاح بہت تیز تھی، اتنی تیز کہ میرے جیسا آدمی بھی گرمی کھا جاتا، وہ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں بھی دکھائی دیتا، اشعار میں مشکل الفاظ تو استعمال کرتا تھا مگر شاعری آسانی سے سمجھ آجاتی تھی، ابتداء میں اس کی شاعری کا محور عورت ہوا کرتی تھی، حالانکہ شکل سے رومانٹک نہیں لگتا تھا، وہ اپنی شاعری میں خیالی محبوباؤں کے جو خاکے کھینچتا وہ اس کے پڑھنے والوں کو اس کی جانب راغب کیا کرتے تھے،وہ ایک پیدائشی ترقی پسند شاعرتھا، جو کہنا ہوتا بلا جھجک کہہ دیتا، کبھی کبھی مرتا اور خود کشی کرتا بھی دکھائی دیتا مگر یہ محض خیالی محبوباؤں کو دھمکی ہوتی تھی،وہ تو پیدا ہی زندہ رہنے اور زندگی کیلئے جدوجہد کرنے کے لئے ہوا تھا۔وہ اپنی شاعری میں عورت سے بہت مرعوب دکھائی دیتا، اتنا زیادہ کہ اس نے اپنے خوبصورت اشعار میں عورت کو مردوں کے قتل عام کا لائسنس بھی دیے رکھا تھا،ہمارے عزیز ترین دوست ناصر بھنڈارا نے بھی شاید اسی کی شاعری سے متاثر ہو کر ایک پنجابی فلم ،، شرابی،، بنا ڈالی تھی،، اس فلم کے گیت اسی سے لکھوائے گئے تھے،میری اور اس کی دوستی آہستہ آہستہ پروان چڑھی تھی لیکن جب دوستی ہوگئی تو پھر ایک دوسرے کے بغیر گزارا نہیں تھا، ہم نے دن میں ہی نہیں راتوں کو بھی بہت آوارہ گردی کی، کچھ مہینے ایک ساتھ ایک گھر میں بھی رہے، پتہ ہی نہ چلا کہ ابتدائی سات سال کیسے ایک پل میں اور ایک سانس میں ہی بیت گئے، ہاں ، ان سات سالوں میں کوئی بڑا انقلاب آیا تو وہ یہ کہ میرے اس شاعر،ادیب اور صحافی دوست کی گوالمنڈی کے رہائشی ایک قدیمی خاندان میں شادی ہو گئی تھی۔ ٭٭٭٭٭ پھر ہم دونوں دوستوں نے ایک ہی اآنکھ سے پانچ جولائی انیس سو ستتر کا وہ منحوس دن دیکھا جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا، پوری قوم اور پورے ملک کی طرح یہ ہم دونوں کی جدوجہد سے بھری ہوئی زندگی کا بھی بد ترین دن ثابت ہوا، کیونکہ اس کا خراج ہمیں جس طرح ادا کرنا پڑا یہ ہمی جانتے ہیں، میں جمہوریت پسند صحافیوں کی صفوں میں گھس گیا اور اس نے اپنی شاعری ، تحریروں اور تقریروں سے مارشل لاء کیخلاف مزاحمت شروع کردی، دائیں بازو کے کئی صحافیوں، ادیبوں اور سمجھوتہ باز شاعروں کیلئے مارشل لاء اپنے آپ کو پروان چڑھانے اور مال بنانے کا سنہری موقع تھا، یہ سب ہاتھ باندھ کر آمر کی جی حضوری میں مصروف ہوگئے، کچھ اسی قسم کے عناصر نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس مزاحمتی شاعر کے خلاف بھر پور پروپیگنڈا مہم شروع کردی، اسے اسلام دشمن اور ملک کا غدار قرار دیدیا گیا، ضیاء الحق کے حامی ایک بڑے اخبار میں اس کے خلاف پورا،،،ادبی ایڈیشن،،، چھاپہ گیا، پولیس اور ایجنسیوں نے اس کا تعاقب شروع کر دیا، اس کے سسرالیوں اور بیوی کا جینا بھی مشکل بنا دیا گیا، بالآخر وہ بیوی کو ساتھ لے کر اپنا وہ ملک ہی چھوڑ گیا جس کے بنانے اور سنوارنے کیلئے وہ عملی جدوجہد کرتا چلا آیا تھا، دیار غیر میں اس نے ایک طویل عرصہ کسمپرسی میں گزارا، اور ناروے چلا گیا تھا، پھر پندرہ بیس سال بعد اسے اپنے وطن میں واپس آنا نصیب ہوا تھا لیکن اس وقت تک یہاں سب کچھ بدل چکا تھا، ناروے میں جا کر اس نے بڑی سرعت سے نارویجئین زبان سیکھ لی تھی، انگلش زبان پر اسے پہلے ہی بہت کمانڈ حاصل تھی۔ پھر اس نے ایک اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا، سرکاری سطح پر مترجم کے فرائض بھی ادا کرتا رہا، اس سارے عرصہ میں اس نے شاعری سے ناطہ نہ توڑا، شاعری ہی تو اس کی سانس تھی،اس کا انداز بیاں بدل گیا ، وہ سالوں میں عالمی سطح پر اردو ، پنجابی نظموں اور غزلوں کا ایک بڑا شاعر تسلیم کر لیا گیا،آج پوری دنیا کے ادبی حلقوں میں توقیر ہے،…جی ہاں! میں بات کر رہا ہوں مسعود منور کی جو ان دنوں لاہور آیا ہوا ہے، سب نے اسے پلکوں پہ بٹھا رکھا ہے، ایک دن میں کئی کئی جگہ میزبانی کے لطف اٹھا رہا ہے، اس کے اعزاز میں دوست احباب تقاریب منعقد کر رہے ہیں، وہ پاکستان سے بتیس سال پہلے بدیس گیا تھا، مگر ان تین دہائیوں میں پروان چڑھنے والی نسلیں بھی اس کی دلدادہ ہیں، پاکستان اس کے لئے اجنبی نہیں بنا، مگر وہ لوگ ضرور اپنے ہی وطن میں اجنبی ہیں جنہوں نے اسے دیس نکالا دیا تھا…… یار مسعود منور، اب آئے ہو تو واپس نہ جانا، 30 سال پہلے ہمارے درمیان جن دکھوں کی سانجھ تھی، وہ دکھ آج بھی ہمارے ساتھی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ تم میری بات نہیں مانوگے، مگر،اے دوست اب ہم پھر ساتھ رہیں گے تو شاید یہ مسافت جلد طے ہوجائے، مسعود منور کے اشعار مسعور منور کی ہی نظر… گھر سے دور اطاق بدن میں رہتا ہوں سواد ہجر کے باب کہن میں رہتا ہوں ٭٭٭٭٭ زندگی مشین تھی ہی نہیں رب کے گھوڑے پہ زین تھی ہی نہیں وصل کے زہر نے کہا، وینس ورنہ حوا حسین تھی ہی نہیں ٭٭٭٭٭ آغا مسعود حسین صاحب ایک ممتاز اور ہر دلعزیز سینئیر صحافی اور براڈ کاسٹر ہیں، بتیس سال پہلے کی طرح آج بھی زندہ مسکراہٹوں سمیت بہت متحرک ، مساوات کراچی میں ہم کولیگ تھے، آغا مسعود پولیٹیکل رپورٹنگ کیا کرتے، پیپلز پارٹی ان کی بیٹ تھی، ان دنوں کراچی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں شبر اعظمی کا کمرہ میرا مستقل ٹھکانہ تھا، یونیورسٹی جن جن لوگوں سے دوستی ہوئی ان میں عزیز میمن (ماروی میمن کے والد) انور سن رائے اور ایوب خاور بھی شامل تھے، انور سن رائے اور شبراعظمی نے یونیورسٹی کی شہرہ آفاق کنٹین ڈھابے پر کھانے کے دوران ایوب خاور سے میرا تعارف مجھے خاقان خاور ( معروف شاعر) بنا کے کرا دیا،میں کئی ہفتے خاقان خاور بن کر ایکٹنگ کرتا رہا، آ کر ایوب خاور کو اپنا اصل تعارف کرا ہی دیا،یوں ہماری دوستی کی باقاعدہ ابتدا ہوئی۔ مساوات آفس میں میری سب سے دوستی تھی، سب سے ہنسی مذاق چلتا ، سوائے شوکت صدیقی صاحب کے، آغا مسعود ان ساتھیوں میں تھے جن کے ساتھ بے تکلفی زیادہ تھی، کبھی کبھی ہم دونوں لنچ ایک ساتھ کیا کرتے تھے، ایک دن آغا صاحب فرمانے لگے ، ان کی بیگم صاحبہ کسی گرلز کالج میں پروفیسر تھیں اور علی الصبح گھر سے نکل جایا کرتی تھیں، یہی وجہ تھی کہ آغا صاحب خود ناشتہ بنانے کی ذحمت سے بچنے کے لئے کچھ کھائے پیئے بغیر ہی آفس آ جایا کرتے تھے، ایک دن مجھ سے فرمانے لگے،،، کیا تم بہت شاندار لنچ کرنا چاہوگے؟ نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔ آغا صاحب مجھے سڑک پر لے آئے اور کہنے لگے کہ ٹیکسی کا کرایہ تم دوگے۔ ہم ٹیکسی پر کئی میل دور نہ جانے نہیں کس کے گھر گئے، وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ اہل خانہ تو خود لنچ کر چکے ہیں اور ہمارے لئے کچھ بچا کھچا بھی نہیں۔ آغا صاحب اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ان سے مخاطب ہوئے،،، ادھر سے گزر رہے تھے، سوچا کیوں نہ ناشتہ آپ کے ساتھ کھایا جائے؟بیگم صاحبہ نے ایک کش حلق میں اتارتے ہوئے فرمایا،، دال چاول پکے ہیں ، آپ بیٹھیں میں نوکر کو کھانا لگانے کے لئے کہتی ہوں۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ آغا مسعود نے میرے لئے اس شاندار لنچ کی زحمت کیوں اٹھائی؟، دو گھنٹے سفر، اسی روپے ٹیکسی کا کرایہ اور دال چاول۔