اٹھارہ ماہ بعد عمران خان کو سمجھ آ ہی گئی کہ یہ قوم پکی پکائی مچھلی کا ٹکڑا مانگتی ہے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سیکھنا اس کا مزاج نہ عادت۔انسان مزاجاً جلد باز اور ناشکرا ہے‘ مگر اتنا بھی نہیں جتنے ہم! ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی خواہش مند اس قوم نے ستر سال تجربات میں ضائع کر دیے‘ ناکام تجربات کو بار بار دھرایا اور پچھتائی آج تک نہیں‘ جس حکمران نے فروغ صنعت وتعلیم کے ذریعے پائیدار ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ڈالی اُسے ہم نے کتا کتا کہہ کے ایوان اقتدار سے نکالا اور صنعتی و تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کے ذریعے پاکستان کو پسماندگی و جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے والا قومی ہیرو ٹھہرا ‘یہ ہے ہمارا اجتماعی شعور۔ عمران خان نے ڈیڑھ سال تک ایک موٹیوشنل سپیکر‘ مہربان ٹیچر اور شفیق لیڈر کی طرح یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ مقروض قوموں کی دنیا میں عزت ہے نہ پیٹ پر پتھر باندھے بغیر پائیدار ترقی و خوشحالی کا سنگ میل عبور کرنا ممکن‘ماضی میں لیے گئے قرضے اتارنے کے لئے پوری قوم کو غیر معمولی محنت‘ ایثار و قربانی اور صبر و برداشت سے کام لینا ہو گا مگر بحیثیت قوم ہمارا جواب وہی تھا جو کسی حیلہ جو ‘گروہ کا ہو سکتا ہے ’’تم جانو اور تمہارا ویژن‘‘ ہم ذخیرہ اندوزی ‘ گراں فروشی اور ملاوٹ کی عادت ترک کریں گے نہ شکم پروری‘ فضول خرچی اور قومی وسائل میں خردبرد سے باز آئیں گے‘ ہم تو اسی ڈگر پر چلیں گے جس پر ہمیں ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو ‘ میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور ان کے چیلے چانٹے چلاتے رہے‘ کام چوری‘ مفت خوری‘ سینہ زوری اور فوری مفاد‘ مچھلی پکڑنے کا طریقہ کون سیکھے اور دریا کے کنارے بیٹھ کر مچھلی کے کانٹے میں پھنسنے کا انتظار کون کرے‘ ہمیں تو پکی پکائی مچھلی چاہیے مانگے تانگے کی ہو یا مال مسروقہ۔ چند روز قبل میں نے برادرم عامر خاکوانی کو بتایا کہ حکومت عجلت پسند عوام کے لئے ریلیف پیکیج لانے کا پروگرام بنا چکی ہے تو انہیں حیرت ہوئی کہ کیسے ممکن ہے؟ اب مگر حفیظ شیخ کی مخالفت کے باوجود یہ پروگرام بن چکا ہے اور شائد یکم مارچ کو باضابطہ اعلان کر دیا جائے۔ اس ریلیف پیکیج میں اگر وزارت خزانہ نے مینگنیاں نہ ڈالیں تو اپوزیشن کے علاوہ میڈیا کا شور شرابہ کم ہو گا’’احساس کفالت پروگرام‘‘ کے بعد ’’میرا روزگار میری آمدنی سکیم‘‘ بھی ’’ناراض باشعور عوام‘‘ کو راضی کرنے کی تدبیر ہے۔ اپوزیشن اور ہمارے ہر فن مولا دانشور توحسب عادت اور حسب معمول اس سکیم میں بھی کیڑے نکال رہے ہیں اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی میں بسنے والے شہری بابو دیہی معاشرے میں گائے‘ بھینس‘ بکری‘ مرغی‘ انڈے‘ دودھ اور مکھن کی اہمیت سے واقف ہیں نہ افادیت سے آگاہ‘ ڈبے کا دودھ ‘فروزن چکن و مٹن اور لیس دار مکھن کے عادی‘ یہ سیاستدان و دانشور جانتے ہیں نہ جاننے کے خواہش مند کہ دیہی معیشت میں لائیو سٹاک کا کیا مقام ہے اور ہم نے لائیو سٹاک کے شعبے کو نظر انداز کر کے اپنا کس قدر نقصان کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارا بچپن میں گھریلو گائے بھینس اور مرغیوں پر انحصار تھا‘ گائے بھینس کا خالص دودھ‘ مکھن ‘ لسّی دیسی مرغی کا انڈا اور گوشت نہ صرف ہماری غذا کا حصہ تھا بلکہ آمدنی کا ذریعہ بھی۔ والد اچھے نشانہ باز شکاری تھے اور ان کے شوق شکار کے طفیل ہمیں تیتر‘ مرغابی‘ مگھ اور ہرن کا گوشت بھی بکثرت کھانے کو ملتا ‘ہر سال قریبی جنگل سے مُشکی تیتر کے بچے لاتے جو والدہ صاحبہ محنت سے پالتی تھیں۔ شوق کا شوق‘ مشغلے کا مشغلہ اور ایک سال بعد اچھی خاصی اضافی آمدنی کا ذریعہ جو دونوں کپڑوں وغیرہ کی خریداری اور تعلیمی اخراجات میں کام آتی۔ ہمارے مرحوم زرعی معیشت دان دوست صفدر سلیم سیال زندگی بھر مختلف حکمرانوں کو سمجھاتے رہے کہ لائیو سٹاک پر توجہ دیں ‘ ہمارامعاشی مستقبل اس سے وابستہ ہے‘ گائے‘ بھینس ‘ بکری کی ساخت پر داخت کے لئے ملک کا موسم اور آب وہوا موزوں ترین ہے اور ہمارے جانوروں کا گوشت ‘ دودھ ‘ مکھن اپنے معیار وذائقے کے لحاظ سے کیلی فورنیا ‘آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور مصر سے کہیں بہتر مگر کسی نے سن کر نہ دیا‘ ہالینڈ صرف پھولوں کی برآمدات سے اربوں ڈالر زرمبادلہ کماتا ہے ہم لائیو سٹاک سے ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں مگر کسی حکمران کو فکر نہ تاجر صنعت کار اور سرمایہ کار کو دماغ‘ انجینئرنگ کے نام پر یہاں اسمبلنگ ہو رہی ہے اور صنعت محض ٹریڈنگ تک محدود ہے ۔کوریا اور چین سے پرزے منگوا کر اندرون ملک اسمبلنگ اور برآمدات کا انحصارر یبیٹ پر ‘ ریبیٹ اور ٹیکس چوری سے صنعت کار و تاجر کے پوبارہ ہیں مگر ریاست اور معاشرے کا بیڑا غرق ہو رہا ہے‘ کسی کو احساس نہیں۔ اسلم کولسری مرحوم یاد آتے ہیں ؎ شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا پسماندہ دیہی علاقوں سے نکل کر شہروں میں آباد ہونے والے بابو‘’’جینٹری‘‘ میں پھنس کر دیہی معیشت کو بھول گئے‘اب مذاق اڑاتے ہیں ‘بخوبی جانتے ہیں کہ بھینس کا دودھ اور مرغی کے انڈے بیچ کر گھر چلانا کسی خاتون کے لئے گھریلو ملازمت سے سو درجہ بہتر ہے کہ واں عزت اور جان کو خطرہ رہتا ہے اور محتاجی الگ۔ شہری بابو اگر سوچیں تو دیہی علاقوں میں جاگیردار‘ وڈیرے اور سردار کا دبدبہ بھی مزارعین کی مفلوک الحالی اور احتیاج کے سبب برقرار ہے‘ ووٹ اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک غریب دیہاتی اشیائے خورو نوش اور روزگار کے لئے جاگیردار کے محتاج ہیں‘ علم ان کے پاس نہیں‘ ہنر سے انہیں محروم رکھا گیا ہے اور دو وقت کی روٹی ‘ تن کے کپڑوں کے لئے وہ وڈیرے کے دست نگرہیں جو بچوں کی صرف تعلیم نہیں‘ صحت کا بھی دشمن ہے کہ کڑیل نوجوان اس کی خُدائی کو‘جوانی کے شوق میں للکارنے لگتے ہیں۔حکومت نے انہی غریب اور بے آسرا دیہاتیوں بالخصوص خواتین کو روزگار کا باعزت موقع فراہم کیا ہے تو ہم مذاق اڑا رہے ہیں اور نہیں سوچتے کہ روزگار کا واحد ذریعہ ملازمت نہیں‘ ملازمت بڑی ہو یا چھوٹی محدود آمدنی کا ذریعہ ہے جبکہ اپنا روزگار‘ محنت‘ لگن اور عقلمندی سے پھیلایا جا سکتا ہے۔ ایک سے سو‘سو سے ہزار‘ ہزار سے لاکھ اور پھر کروڑ‘ جن ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی ہم مثال دیتے نہیں تھکتے وہاں کسان شہر کے تاجر کی طرح آسودہ ہے اور شہری آبادی کا ان داتا‘ سوویت یونین شکست و ریخت کا شکار ہوا تو سب سے زیادہ تباہی ان ریاستوں میں مچی جنہیں متعصب حکمرانوں نے صنعت و تجارت کے لئے مختص کئے رکھا‘مسلم ریاستیں زراعت اور لائیو سٹاک کی بنا پر غربت‘ افلاس اور جسم فروشی کے عذاب سے بچ گئیں۔ ہندوستان میں ذات پات اور چھوت چھات کے معاشرے نے یہ سوچ پروان چڑھائی کہ مفت خورے جاگیردار ‘ کام چور سرکاری ملازم اور نذرانہ خورمخدوم باعزت لوگ ہیں‘ خواتین کو گائے‘ بھینس ‘ بکری اور مرغی جبکہ مردوں کو موٹر سائیکل رکشے‘ ٹھیلے اور پرچون کا سامان دے کر حکومت اپنے پائوں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے مگر جاگیردارانہ ذہنیت اسے قبول کرنے کو تیار ہے نہ غلامانہ مزاج‘زرعی رقبوں کو ہائوسنگ سکیمیں چاٹ رہی ہیں‘ پانی کا بحران عالمی سطح پر سر اٹھا چکاہے اور غذائی قلت سے ہر ایک پریشان ہے مگر لائیو سٹاک کے فروغ اور افلاس زدہ آبادی کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوششوں کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میںمحمد یونس کے گرامین بنک اور پاکستان میں ڈاکٹر امجد ثاقب کے ادارے اخوت نے اسی انداز میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا کئے اور لاکھوں خاندان ہاتھ پھیلانے کے بجائے اب اخوت کے عطیہ دہندگان ہیں مگر بغض عمران کے مارے سیاستدان دانشور اور سوشل میڈیا کے مجاہد اس مہم کی مخالفت میں سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں وہ بھی جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حق میں دلائل تراشا کرتے تھے ؎ کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گل یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا لیا (اسلم کولسری)