اسلام آباد (خبرنگار)دھوکہ دہی میں ملوث یوٹیلٹی سٹورز آف پاکستان کے دو ملازمین کی بریت کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ایک بار پھر نیب کی کارکردگی کے بارے میں سو الات اٹھائے ہیں اور آبزرویشن دی ہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم 1947ء سے اب تک اس ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لئے کوئی نظام نہیں بناسکے ۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد نے کہا کہ اس ملک میں نیب کا سارا ریکارڈ ہی غائب ہوجاتا ہے ۔دوران سماعت نیب کے اسپیشل پراسکیوٹر نے موقف اپنایا کہ نیب آرڈننس کی سیکشن 32میں ترمیم نہایت ہی ضرروی ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ملازمین کی بریت کے خلاف نیب کی درخواست پر سماعت کی تو ملازمین کے وکیل نے کہا اس مقدمے میں ملزمان ماتحت عدالت سے بری ہوئے اور ان پر الزامات ثابت نہیں ہوسکے ۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ ملزمان کو غلط طور پر نیب آرڈیننس میں ترمیم کا فائدہ دیا گیا، نیب آرڈیننس کے سیکشن 32 میں ترمیم کی ضرورت ہے ملزمان کے وکیل نے نیب کی طرف سے دائر اپیل میں تکنیکی غلطیوں کی نشاندہی کی اور موقف اپنایا اس میں فیصلے کی نقول جعلی ہیں۔عدالت نے نیب کے اس غیر سنجیدہ طرز عمل پر تشویش کا اظہار کیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب حکام سے کہاکہ ہم نے قانونی معاملات کو دیکھنا ہے اور آپ فراڈ کے معاملات کو لارہے ہیں۔عدالت نے کیس پر مزید سماعت غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کرکے نیب کی درخواست کو نمبر لگانے کے ہدایت کردی ۔ یوٹیلٹی سٹورز کے ملازمین مسعود عالم اور ضیا اللہ پر کرپشن کے الزامات تھے لیکن انہیں ٹرائل کورٹ نے بری کردیا تھا۔