زیادہ پرانی بات نہیں پاکستان میں جنوبی کوریا کا واحد تعارف اسکی وہ کمزور سی ہاکی ٹیم ہوتی تھی جس کے مچی ہوئی آنکھوں والے کھلاڑی میدان میں یہاں سے وہاں بھاگتے پھرتے دکھائی دیتے تھے مجھے کورین کھلاڑیوں پر ترس آتا تھا ان دنوں کوریا کا پاکستان آسٹریلیا یاہالینڈ جیسی کسی ٹیم سے میچ پڑجاتا تو شائقین کی دلچسپی کوریا پر ہونے والے گولوں کی تعداد تک ہی ہوتی کہ اس بار کتنے گول پڑے ۔ہاکی میں کمزور ترین سمجھے جانے والے کورین کا معاشی حال بھی ایسا ہی تھا ایک طرف چار دہائیوں پہلے کا کوریا رکھیں اور ساتھ ہی آج کے کوریا کی تصاویر رکھیںتو یقین نہیں آئے گا ،کوریا کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے سام سنگ ،ہنڈائی،ایل جی ،کیا موٹرز،پوسکو یہ وہ ادارے ہیں جنہوںنے کوریا کو کہا ں سے کہاں پہنچا دیا ہے اس وقت کوریا کی دنیا کی گیارہویں مضبوط اقتصادی قوت ہے ،نعمان کاکا خیل جب کوریا پہنچا تو وہ اسکی چکاچوند کردینے والی روشنیاں دیکھ کرششدر رہ گیا او ر جب اس نے کوریا پر دستاویزی فلم دیکھی تو اسکی حیرت کئی گنا بڑھ گئی کہ چالیس برس پہلے کا کوریا کیا تھا اور اب کیا ہے بات آگے بڑھانے سے پہلے میں نعمان کاکا خیل کا تعارف کرادوں ،نعمان بہت باصلاحیت اوراعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہے نوشہرہ کینٹ کے ہائی اسکول سے قرطبہ کالج حیات آباد اور پھر اسلامیہ کالج پشاور سے کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد پہنچا یہاں سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد نعمان نے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا جو مسدود ملاتو اس نے اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور دنیا سے رابطوں میں لگ گیا اسکے پاس علم تھا قابلیت تھی اسے جنوبی کوریا سے ملازمت کی پیشکش ہوئی اور وہ واڑان بھر کر کوریاجا پہنچا یہاں کی نیشنل یونیورسٹی میں وہ معاون استاد ہوگیا اسے یہاں سے کوریا کوسمجھنے پرکھنے کا موقع ملا آپ اس سے پوچھیں کہ کوریا کیا ہے وہ بتائے گا کہ محنت محنت اور انتھک محنت ۔۔۔ کوریا نے چار دہائیوں پہلے سوچا تھاکہ اسے صنعتی میدان میں آگے بڑھنا چاہئے کوریا نے بھاری مشینریاں بنانے شروع کیں آگے بڑھنے کے لئے انہیں علم او ر تحقیق کی ضرورت تھی انہوں نے تعلیم پر فوکس کیا اور پھر تعلیم نے محنت کے ساتھ مل کر کوریا کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا ،نعمان کوریا کی ترقی کی وجہ محنت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور تحقیق بتاتا ہے اسکا کہنا ہے کہ ریسرچ بہت مہنگی ہوتی ہے اسے آسان زبان میں کڑوا گھونٹ کہیں۔ کورینزنے یہ گھونٹ ہنسی خوشی پیتے ہیں نعمان نے بتایا کہ میرے ایک دوست کو تحقیق کے دوران لاکھوں روپوں مالیت کی کسی شے کی ضرورت پڑگئی اس نے اپنے پروفیسر سے ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ اچھی خاصی مہنگی ہے اس پر پروفیسر نے کہا کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ہو ریسرچ کی ضرورت پوری ہونی چاہئے اور پھر وہ چیز پچیس روز میں اس لیبارٹری میں موجود تھی ،نعمان نے مجھے بتایا کہ احسان بھائی ! یہاں میں ایسے بزرگ سائنسدانوں سے ملا ہوں جنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے پڑھا ہے وہ مجھے کہتے ہیں تمہیں وہاں سے یہاں آنے کیا ضرورت ہے تمہارے پاس توGOD OF PHYSICS فزکس کے دیوتا ہیں ،نعمان کہتا ہے میں ان کی بات سن کر بس مسکراکر رہ گیا کہ انہیں کیا کہتا۔ آپ نعمان کاکا خیل سے مل چکے یہ نوجوان اب آسٹریا کے ایک تحقیقی ادارے میں کام کررہا ہے اب میں آپکی ملاقات ادریس آفریدی سے کرواتا ہوں ،ادریس آفریدی ریاضی دان ہے ریاضی اسکا پہلا عشق ہے ادریس میرے دوست رفیق آفریدی کا چھوٹا بھائی بھی ہے ،اس نے کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس سی ریاضی کیا پھر این ای ڈی یونیورسٹی سے ایم ایس ریاضی کیا جس کے بعد کامسیٹس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرکے اپنے خاندان بلکہ علاقے کا پہلا سندیافتہ ریاضی دان قرار پایا،ادریس آج کل اسلام آباد کی ایک نجی جامعہ میں پڑھا رہا ہے اس نے گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقات میں بتایا کہ وہ کچھ دنوں میں چین جانے والا ہے جہاں شین زن یونیورسٹی اسکا انتظار کررہی ہے ،ادریس آفریدی عام نوجوان نہیں ہے ریاضی جیسے خشک مضمون میں اسکی لیاقت قابل رشک ہے اسکی جی پی اے تین اعشاریہ نو فیصد ہے عالمی تحقیقاتی رسائل میںاسکے چالیس مقالے چھپ چکے ہیں،ادریس نے پی ایچ ڈی سے فراغت کے بعد یہیں ملازمت کے لئے کوششیں کیں ہونا تویہ چاہئے تھا کہ نوکریاں خود چل کر اسکے پاس آتیں لیکن کہاں جناب ! ادریس ملازمت کے لئے کوششیں کرتا رہا سرکار کے پاس اس قابل دماغ کے لئے جگہ نہ تھی اس نے پرائیوٹ سیکٹر میں درخواستیں دیں اور پھرنعمان کاکا خیل کی طرح لیپ ٹاپ کھول لیا کچھ ہی عرصے میں اسے شاہ فہد یونیورسٹی سعودی عرب اور شین زن یونیورسٹی چین سمیت چار جامعات نے ملازمت کی پیشکش کردی اسے شین زن یونیورسٹی کی پیشکش زیادہ اچھی لگی جسکی ریسرچ کا بجٹ ہی تیئس ارب روپوں کا ہے ،یہ یونیورسٹی ادریس کووہ پرکشش تنخواہ دے گی جو پاکستان میں کسی جامعہ کے وائس چانسلر کی بھی نہیں،ادریس سے ملاقات کے دوران ہی میں نے گوگل کرکے شین زن یونیورسٹی کا بجٹ چیک تو دماغ بھک سے اڑ گیا ،چین کی اس اوسط درجے کی جامعہ سمجھی جانے والی یونی ورسٹی کا اکیڈمک بجٹ آٹھ بلین آر ایم بی یعنی ایک کھرب سینتالیس ارب روپے ہے جبکہ بیجنگ یونیورسٹی کا بجٹ سوا چار بلین امریکی ڈالر ہے ہمیں آئی ایم ایف سے جو قرضہ ہاتھ پاؤں جوڑ کر کشکول سامنے کرکے ملا وہ اس ایک یونیورسٹی کے سالانہ بجٹ کے نصف کے نصف سے بھی بہت کم ہے ۔ قومیں ایسے نہیں بنتیں ،کوریااور چین ہم سے بعد میں آزاد ہوئے ہم سے زیادہ بدحال تھے لیکن انہوں نے ٹھان لیا کہ آگے بڑھنا ہے اور محنت کرکے آگے بڑھ گئے ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ٹھان لینااورسب سے پہلے اپنے ذہین دماغوں کو یہاں روکناہوگا جامعات کو صنعتوں سے جوڑنا ہوگا جس دن یہ دو شعبے جڑ گئے پاکستان کو پرواز سے کوئی نہیں روک سکتا فی الوقت تو پاکستان میں تین ہزار پی ایچ ڈی بے روزگار ہیںجو کسی بھی وقت یہاں سے نکل سکتے ہیں خدارا!لمبی تان کر سونے والے ہائیرایجوکیشن کمیشن کو جھنجھوڑا جائے یہ کس مرض کی دوا ہے!