اْس عاشق کی طرح، جس کی بات، جی کی جی میں ہی رہ جاتی ہے، تاریخ بھی، ان کہی بے شمار داستانوں کا قبرستان ہے۔ یہ آثار اور یادگاریں، جو ہم اور آپ آج دیکھتے ہیں، خْدا جانے، کتنی عمارتوں کے کھنڈروں پر قائم ہیں۔ کہنا چاہیے کہ ع ہے فنا پر ہی یہاں بنیاد ہر تعمیر کی ہاں! لیکن وہ چند برگْزیدہ، خْدا کے نیک بندے، جن پر یہ خاص عنایت کی گئی کہ ہم ان کے نام سے ہی نہیں، کام سے بھی واقف ہیں۔ انہیں محفوظ، دست ِقدرت نے رکھا ہے، سو کوئی گزند انہیں کیوں پہنچے؟ یہ کتبہ ایک خوش عقیدہ بزرگ نے، دوسرے خوش عقیدہ بزرگ کے مزار پر، کندہ کرایا تھا۔ ا"یارب! این ارض ِمقدس، چہ مقامست! چہ جاست!" کز زمین، تا بہ فلک، مظہر ِانوار ِخْداست لیکن "مظہر ِانوار ِخْدا" کا سب سے زیادہ مصداق، وہ مختصر سا احاطہ ہے، جو مسجد ِاقصٰی اور قبتہ الصخراء پر مشتمل ہے۔ اقصٰی جدید کے تہہ خانے میں، اقصٰی قدیم کا وہ مقام آج بھی زیارت گاہ ہے، جہاں کبھی انبیائے خْدا جمع ہوئے تھے۔ انبیاء کے اس اجتماع نے، وہ تاریخی نماز یہاں ادا کی تھی جس کی امامت آنحضورؐ نے کی۔ قبتہ الصخراء ، اقصٰی قدیم سے، صرف چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ قْبہ کی خوبصورتی نے ابن ِبطوطہ جیسے جہاں گرد کو بھی، حیران کر دیا تھا۔ اس کی ظاہری خوب صورتی، بہت کچھ مرہون ِمنت، صلاح الدین ایوبی کی ہے۔ مگر اصل زیبائی قبتہ الصخراء کی یہ ہے کہ سرور ِکائناتؐ ، معراج پر یہیں سے تشریف لے گئے تھے۔ بر ِصغیر کے مسلمانوں کو شہر ِقدیم سے ایک نسبت اَور بھی ہے۔ مولانا محمد علی "الہندی" کی قبر، اسی احاطے میں، قبے کے قریب ہی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کون تھے، اب تو یہ بتانا پڑتا ہے۔ کبھی پورے بر ِصغیر میں، گاندھی سمیت، کسی کو ان جیسی مقبولیت حاصل نہیں تھی۔ "کانگریسی علماء " کے برخلاف، کہا جاتا تھا کہ مولانا گاندھی کو جیب میں لیے پھرتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے، ایک ویڈیو نظر پڑی۔ ویڈیو میں ایک معروف "دانش ور"، خلافت تحریک اور اس دور کی مقبول نظم "بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو" کا مذاق اْڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تْرک خلافت سے خود جان چھْڑا رہے تھے اور ہمارے مجاہد، یہاں خلافت کا جہاد کر رہے تھے۔ افسوس! برین عقل و دانش، بباید گریست! اورخود اپنی قوم کی تحقیر کرنا، اس کے کیا معنی؟ یہ کِس جادو نے بچوں کو کیا خود بین و خود آرا! ایسے دانش "ور"، نہیں جانتے کہ اپنے لائق ِعقیدت بزرگوں کی تحقیر، اپنے چہرے کو مسخ کرنے کے برابر ہے! پاکستانیوں پر، یہ احسان ہے اس دور کے مسلمانوں اور خصوصا علی برادران کا، کہ آج تْرکی، پاکستان کا بہترین دوست ہے۔ تحریک ِخلافت میں مسلمانوں کو مجتمع کرنا، مولانا محمد علی جوہر کے بہت سے کارناموں میں سے ہے۔ کم لوگ واقف ہیں کہ محمد علی جناح کو مسلم لیگ میں لانے والے، یہی محمد علی جوہر تھے۔ انگریزوں کو مولانا، تْرکی بہ تْرکی جواب دیتے تھے۔ اس مرد ِخْدا کی کھال میں ایک خْدا کے سوا، کسی کا خوف داخل ہی نہیں ہوا۔ حد یہ ہے کہ گاندھی سے بہترین تعلقات کے دنوں میں بھی، بغیر کسی لومتہ لائم کے، انہوں نے کہا تھا کہ سیاسی معاملات میں تو خیر، لیکن مذہباً، مسلمان ایک چمار کو بھی میں گاندھی سے افضل جانتا ہوں۔ مولانا کا تفصیلی ذکر، ان شاء اللہ، آئندہ کسی نشست میں ہو گا۔ فی الحال اس احاطے کے ساتھ ہی واقع، یہودیوں کی دیوار ِگریہ تک چلتے ہیں۔ بظاہر، ان گریہ کرنے والوں کا، بَس چلے تو دیوار سے لپٹ کر جان ہی دے دیں۔ لیکن اصل میں ان کی جان، دیوار کے اس پار، مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں اٹکی ہوئی ہے۔ دو سال پہلے بھی دیکھا تھا کہ دیوار ِگریہ کے بالکل ساتھ، کھْدائی کی جا رہی ہے۔ اْسی جگہ، توڑ پھوڑ کا کام، بدستور جاری نظر آیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہودی، زیر ِزمین سرنگ نکال کر، اقصٰی قدیم تک پہنچ چکے ہیں اور اس کی بنیادیں کمزور کر کے، گرانا چاہتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ مشہور یہ ہے کہ حضرت ِسلیمانؑ نے جادو گروں کے جو اوراق ضبط کر کے دفن کر دیے تھے، ان کی یہودیوں کو تلاش ہے۔ اتنا تو یہ قوم تسلیم بھی کرتی ہے کہ ہیکل ِسلیمانی کے آثار ملتے ہی، ہیکل کی تعمیر ِنو کی جائے گی۔ مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کے اس جھگڑے میں، عیسائی ممالک نے اپنا سارا وزن، یہودیوں کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ عبرت کا محل ہے کہ مقامی عیسائیوں بے چاروں کی بھی، کوئی شنوائی نہیں۔ حالاںکہ، فلسطین اور اسرائیل، دونوں کے دسیوں شہر، حضرت ِعیسٰیؑ کے قدوم ِمبارک سے بھی شرف یاب ہوئے ہیں۔ لیکن عیسائی ممالک کی بے اعتنائی نے، مقامی عیسائیوں کو حال سے بے حال کر دیا ہے۔ شہر ِقدیم سے نکل کر، ارادہ ""مَگِدّْن" جانے کا تھا۔ جو فلسطینی میرا ڈرائیور اور گائیڈ تھا، "مَگِدّْن" کے میدان کا ذکر، اس سے سنا تھا۔ اس بار جو بدرقہ ہمراہ تھا، اس نے بتایا کہ یہود کی قدیم روایتوں کے مطابق، آخری معرکہء حق ِباطل، اس میدان میں ہو گا۔ اسی جنگ کو عیسائی آرماگیڈن، اور مسلمان ہرمجدْن کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ نہایت وسیع میدان، کبھی فلسطین کا حصہ تھا، مگر اب، اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ مگدن سے ہماری اگلی منزل، گولان کی پہاڑیاں تھیں۔ ان پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو، امریکا کی باقاعدہ حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ اس قوم کی شر پسندی اتنی ہی پرانی ہے، جتنی اس کی معلوم تاریخ! شیخ سعدی نے ایک لطیفہ نما حکایت بیان کی ہے کہ کسی شخص کو مکان کی تلاش، ایک یہودی کے محلے تک لے آئی۔ یہودی نے مکان کی بہت تعریف کی۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ ہاں! یہ ساری خوبیاں اس میں ہیں۔ خرابی صرف یہ ہے کہ اسے کے ہمسائے تم ہو! زبردستی کی ہمسایگی کا ہی عذاب، فلسطینیوں پر ڈالا گیا ہے۔ لیکن بھْگتان، سب بھگت کر رہیں گے۔ اور بشمول دوسرے ممالک کے، ہم سب ع بچتے نہیں مواخذہء روز ِحشر سے!