ٹی ہاؤس اہل قلم کی بیٹھک کا نام ہے ۔ لاہور کے ٹی ہاؤس کی طرز پر ملتان کی ادب نواز ڈی سی او زاہد سلیم گوندل نے ملتان کو ٹی ہاؤس کا تحفہ دیا ۔ یہ اچھا قدم تھا کہ آج بھی شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں اور آرٹسٹوں کو ایک جگہ بیٹھنے اور تقریبات منعقد کرنے کا موقع مل رہا ہے اور ان کی تحسین کی جا رہی ہے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک وقت اباسین آرٹس کونسل اہل قلم اور آرٹسٹوں کی بیٹھک تھی ۔ مگر اباسین آرٹس کونسل کو ختم کر دیا گیا ۔ فن سے وابستہ لوگ پیمرا آفس ڈی آئی خان میں اُٹھتے بیٹھتے تھے تو اسے بھی پشاور شفٹ کر دیا گیا ۔ اسی طرح پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل قلم آ کر اخبارات کا مطالعہ کرتے ، وہ بھی ڈی آئی خان سے ختم کرکے پشاور شفٹ کر دیا گیا ۔ پوری دنیا میں سہولتوں کا دائرہ وسیع کیا جاتا ہے اور نچلی سطح تک سہولتیں پہنچائی جاتی ہیں مگر یہ کیا تبدیلی ہے کہ محروم اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کی بجائے تنزلی ہو رہی ہے۔ وقت اور حالات کو راستہ نہ دیا جائے تو وہ اپنا راستہ خود بنا لیتے ہیں ۔ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے اہل قلم کے ٹھکانے چھینے گئے تو لکی مروت سے تین بھائی مظفر خان مروت ، باقی بااللہ مروت اور ڈاکٹر سعد عبداللہ مروت ڈی آئی خان آئے ، حق نواز پارک کے سامنے بیٹھک کے نام سے ایک ٹی ہاؤس بنایا جہاں زیادہ تر ڈی آئی خان کے اہل قلم تشریف فرما ہوتے ہیں ۔ سرائیکی گرینڈ کنونشن کے سلسلے میں ڈی آئی خان گیا تو بیٹھک میں محترم باقی بااللہ مروت نے چائے کا اہتمام کیا اور مجھے اہل قلم سے ملوانے کے ساتھ ساتھ اپنے آرٹسٹ بھائی مظفر خان کے ذوق اور ان کے آرٹ سے متعارف کرایا ۔ مظفر خان ڈی آئی خان کے معروف آرٹسٹ عجب خان کے شاگرد ہیں۔ انہوں نے بیٹھک میں اپنے استاد کے علاوہ بہت سے دیگر آرٹسٹوں کے فن پارے سجا رکھے ہیں جس سے ڈیرہ اسماعیل خان کی قدیم تہذیب، ثقافت اور آرٹ کا رنگ جھلکتا ہے ۔ فریمز میں آویزاں کئے گئے فن پاروں کے علاوہ دیواروں پر خوبصورت خطاطی کی گئی ہے ، سرائیکی ، اردو اور پشتو میں دلچسپ جملے لکھے گئے ہیں ۔ آپ کا وہاں جانا ہو، ایک نظر آپ ’’ کیفے بیٹھک ‘‘ کی دیواروں پر دوڑائیں تو دیواریں آپ سے باتیں کرتی نظر آئیں گی ۔ آرٹسٹ کبھی خود نہیں بولتا ، اس کے حرف بولتے ہیں ، لفظ باتیں کرتے ہیں اور آرٹسٹ بے جان لکیروں کو زندگی دیتے ہیں ۔ میں وہاں موجود ہوں ، میرے سامنے حیران کن منظر ہے ۔ ایک جملہ خوبصورت خطاطی کے ساتھ لکھا ہوا ہے ’’ میرے عزیز ہم وطنو!‘‘۔ میں نے باقی بااللہ سے پوچھا کہ یہ فقرہ آپ کو کیوں پسندہے ؟ اس نے کہا کہ پسند نہیں لیکن قوم کو خبردار رکھنا ضروری ہے ۔میں دیکھ رہا ہوں میری نظر ایک شعر پر پڑتی ہے، لکھا ہوا ہے ’’ پیار نال نہ سہی غصے نال آ گیا کر ، بیماراں نوں چا ہ ( چائے ) مل جاندی اے ‘‘ ۔ میں دیکھ رہا ہوں ، ایک اور جملہ میرے سامنے ہے ’’ اساں تھوڑی پیتی اے ( چائے ) تے مچ گیا شور وے ‘‘ ۔ میرے سامنے مشاہیر کے جملے میری دلچسپی کا سامان ہیں ۔ خوبصورت رنگین لکھائی کے ساتھ منٹو کا یہ مقولہ لکھا ہوا ہے ’’ کہ یہ عیب مجھ میں شروع سے رہا ہے کہ مجھ میں جھوٹ بولنے کا سلیقہ نہیں ‘‘ ۔ بانو قدسیہ کی طرف سے یہ بات آئی کہ ’’ عزت نفس انسان کی روٹی کپڑے اور مکان سے بھی بڑی ضرورت ہے ‘‘۔ اسی طرح اشفاق احمد کا جملہ دیکھئے ’’ لوگ مر جائیں تو صبر آ جاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے ۔ ‘‘ پشتو میں میرے سامنے اشعار لکھے ہوئے ہیں ۔افسوس کہ نہ میں ان کو پڑھ سکتا ہوں اور نہ لکھ سکتا ہوں اور نہ ہی ان کا مفہوم بیان کر سکتا ہوں ۔ ہم بھی عجب ہیں کہ ہمیں عرب ، ایران ، ہندوستان اور انگلینڈ کی زبانیں تو آتی ہیں مگر ہم پاکستانی ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھ سکتے ۔ بیٹھک میں پخیر راغلے ، دیرہ پھلاں دا سہرا، سجٖنْ آون اکھیں ٹھرن ، اساں آپ زندہ باد اور شاکر شجاع آبادی کا شعر بھی لکھا ہوا ہے کہ ’’ جڈٖاں شاکر مُک کائنات ونجٖے ، وت سامنْے ڈٖیکھیں میں ہوساں ‘‘۔ میں نے شاعروں ادیبوں دانشوروں اور آرٹسٹوں کے جھرمٹ میں سوال کیا ’’ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا کیا بنے گا ؟ ‘‘ سلیم شہزاد نے کہا کہ وہی جو عمران خان کے دھرنے کا بنا تھا ، میں کہا کہ کیا مطلب ؟ وہ بھی ناکام ہوا اور یہ بھی ناکام ہو گا ۔ سعید اختر سیال نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن بھی عمران خان کے نقش قدم پر ہیں ، عمران خان نے بھی نواز شریف سے استعفیٰ اور نئے الیکشن کا مطالبہ کیا ، مولانا فضل الرحمن بھی یہی کہہ رہے ہیں ، عمران خان نے بھی کہا تھا کہ دھاندلی ہوئی ، فرشتوں نے ووٹ ڈالے ، مولانا فضل الرحمن بھی یہی بات کر رہے ہیں ۔ سلیم شہزاد نے کہا کہ ایک بات یہ بھی ہے کہ عمران خان بھی معاہدے کی پاسداری نہ کرتے ہوئے ریڈ زون میں پہنچے ، مولانا کے عزائم بھی ایسے ہی لگتے ہیں ۔ یہی مکافات عمل ہے یا جو نام دیں ۔ در اصل حقیقت یہی ہے کہ دونوں کے احتجاج میں بہت مماثلت ہے ۔ سرائیکی دانشور سعید اختر سیال نے مزید کہا کہ اب سوال نتیجے کا ہے تو 2014ء میں 126 دن کے دھرنے میں عمران خان حکومت تبدیل نہ کر سکے ، مولانا فضل الرحمن دھرنا 252 دن تک لے جائیں تو حکومت شاید تبدیل ہو جائے مگر جن مخیر حضرات نے عمران خان کے دامے درمے ، قدمے سخنے ساتھ دیا ، وہ ٹارگٹ مدرسوں کے چندے سے شاید پورا نہ ہو سکے ۔ سعید اختر سیال نے کہا کہ ایک اہم مماثلت کا ذکر ہواہے کہ عمران خان ، مولانا فضل الرحمن ، دنوں کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے۔ ایک سال سے فرق سے دونوں ہم عمر بھی ہیں ، نسلی طور پر پٹھان ، ثقافتی طور پر سرائیکی ہیں اور دونوں کے خاندان کو سرائیکی وسیب نے بہت کچھ دیا ۔ دونوں ووٹ سرائیکیوں سے لیتے ہیں ، ووٹ لینے کے بعد پشتون بن جاتے ہیں ، دونوں کی ہمدردیاں طالبان سے ہیں ۔ ڈی آئی خان ، ٹانک میں سینکڑوں لوگ دہشت گردی میں مارے گئے ، مگر دونوں کی ہمدردیاں وانا وزیرستان افغانستان سے ہیں ۔ دونوں وہاں کی ہمدردی کا اس طرح کرتے ہیں جیسے ڈی آئی خان میں مسلمان نہ رہتے ہوں ۔