معزز قارئین!۔ 30 نومبر 1967ء کو ، لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ، جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی چیئرمین شِپ میں جو، اُن کے دو اڑھائی سو دوستوں اور عقیدت مندوں نے ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ قائم کی تو ، اُس کے چار راہنما اصولوں میںایک راہنما اصول تھا کہ ’’ جمہوریت ہماری سیاست ہے ‘‘ لیکن جنابِ بھٹو جب تک حیات رہے ، اُنہوں نے اپنی پارٹی میں بھی کبھی ’’ جمہوریت کو پھلنےؔ ، پھولنے نہیں دِیا، البتہ ایک بار ۔ صِرف ایک بار ، اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ، اپنی اہلیہ ’’ خاتونِ اوّل پاکستان‘‘ بیگم نصرت بھٹو کی نگرانی میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں 26 اپریل 1976ء کو پاکستان پیپلز پارٹی (شعبہ خواتین) کے صدور اور سیکرٹریز جنرل کے انتخابات ضرور کرائے تھے ؟۔ اِس سے پہلے بیگم بھٹو کی نگرانی میں چاروں صوبوں میں ضلع، شہر اور تحصیل کی سطح پر ، پارٹی کی خواتین نے ضلعی صدور اور سیکرٹریز جنرل کے انتخابات میں ووٹ دے کر ،چاروں صوبوں میں ضلعی پیپلز پارٹی اور سیکرٹری جنرلز کو منتخب کِیا تھا۔ مَیں صِرف 26 اپریل 1976ء کو ٹائون ہال لاہور میں پنجاب کی صدر اور سیکرٹری جنرل کے انتخاب کی بات کروں گا ۔ صدر کے عہدے کے لئے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ، ڈاکٹر مبشر حسن کی بڑی بہن، مِس آئمہ حسن ، ملتان کی بیگم نادر خان خاکوانی اور لاہور سے رُکن پنجاب اسمبلی بیگم ریحانہ سرور امیدوار تھیں اور سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لئے راولپنڈی کی رُکن پنجاب اسمبلی مِس ناصرہ کھوکھر، عیسائی ایڈووکیٹ محترمہ اے ۔ ایف۔ تبسم اور بیگم نجمہ اثر چوہان ۔ انتخابات سے پہلے میرے گھر میں دو بار عجیب ڈرامائی ماحول پیدا ہوگیا تھا ۔ لاہور کے صوبائی حلقہ نمبر 6 میں ( جنابِ بھٹو کے باغی ،سابق گورنر پنجاب ملک غلام مصطفیٰ کھر کو شکست دینے والے رُکن پنجاب اسمبلی جناب شیر محمد بھٹی ) کی قیادت میں تین ارکانِ صوبائی اسمبلی اور ایک طالبعلم لیڈر شریف میتلا، میرے گھر آئے، مَیں نے مہمانوں کے لئے چائے پانی کا اہتمام کِیا۔ اُن سب نے بیک زبان مجھ سے کہا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کا حکم ہے کہ آپ اپنی بیگم صاحبہ کو انتخاب سے دستبردار کرالیں ۔ ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں کہ مِس ناصرہ کھوکھر بلا مقابلہ پنجاب پیپلز پارٹی کی سیکرٹری جنرل منتخب ہو جائیں !‘‘۔ مَیں نے عرض کِیا کہ’’ مَیں پیپلز پارٹی کے "Discipline" میں نہیں ہُوں اِس لئے مَیںڈاکٹر صاحب کا حکم نہیں مان سکتا، آپ لوگ تشریف لے جائیں!‘‘۔ پھر وہ سب لوگ چلے گئے ۔ اُسی شام وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی تشریف لائے اور اُنہوں نے کہا کہ ’’ بھائی اثر چوہان !۔ مَیں جانتا ہُوں کہ بھابھی صاحبہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، مَیں انہیں حکومت میں کوئی اعلیٰ عہدہ دِلوا دوں گا، آپ مِس ناصرہ کھوکھر کو بلا مقابلہ پیپلز پارٹی پنجاب کی سیکرٹری جنرل منتخب ہونے دیں ‘‘ ۔ مَیں نے مولانا صاحب سے معذرت کرلی اور رُخصت کردِیا۔ معزز قارئین!۔ دو دِن بعد بیگم نصرت بھٹو گورنر ہائوس لاہور میں تھیں، اُنہوں نے بیگم نجمہ اثر چوہان کو وہاں مدعو / طلب کر لِیا اور سمجھایا کہ ’’ آپ کا شوہر اپنے اخبار روزنامہ ’’ سیاست‘‘ میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے باغیوں ملک غلام مصطفیٰ کھر اور محمد حنیف رامے کو "Support"کر رہا ہے ، اِس لئے آپ کے لئے پارٹی کا انتخاب لڑنا مناسب نہیں ہے؟‘‘۔ نجمہ نے کہا کہ ’’ قابل احترام خاتونِ اوّل! براہ مہربانی آپ میرے شوہر کو اپنے پاس بُلا کر اُنہیں اپنی صفائی کا موقع تو دیں ؟‘‘۔ خاتون اوّل ، راضی ہو گئیں ۔ تین دِن بعد مَیں اور بیگم نجمہ اثر چوہان ، وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں خاتون اوّل کے دفتر میں حاضر تھے۔ بیگم نصرت بھٹو نے بھی مجھے یہی مشورہ دِیا کہ’’ آپ کی بیگم کو انتخاب میں حصّہ نہیں لینا چاہیے!‘‘۔ مَیں نے عرض کِیا کہ ’’ قابلِ احترام خاتون اوّل ، کل آپ لاہور میں تھیں ۔مجھے ’’ نوائے وقت‘‘ اور کئی دوسرے اخبارات سے متعلق میرے دوست صحافیوں نے آگاہ کِیا تھا کہ ’’ بیگم نصرت بھٹو آپ پر دبائو ڈالنے کے لئے آپ کو اسلام آباد طلب کریں گی!‘‘۔ مَیں نے جواب دِیا تھا کہ ’’ بھلا ’’ فخر ایشیا ‘‘ کہلانے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قابل احترام اہلیہ ’’خاتون اوّل ‘‘ پاکستان مجھ پر دبائو کیوں ڈالیں گی؟ ۔ وہ بھلا میری بیگم کو انتخاب سے دستبردار کرا کے پاکستان پیپلز پارٹی کو بدنام کیوں ہونے دیں گی؟ ‘‘۔ اِس پر بیگم صاحبہ نے چند لمحے کے لئے سوچا ۔ پھر مسکراتے ہُوئے میری اہلیہ سے کہاکہ ’’ٹھیک ہے نجمہ! ۔ مَیں اپنی پارٹی کو بدنام ؔنہیں ہونے دوں گی۔ آپ انتخاب لڑیںگی !‘‘۔ معزز قارئین!۔ 26 اپریل کو انتخاب ہُوا تو، پنجاب پیپلز پارٹی کے اضلاع ، شہروں اور تحصیلوں کی 225منتخب صدور اور سیکرٹری جرنلز نے ووٹ ڈالے تو، بیگم نادر خان خاکوانی کو صدر اور بیگم نجمہ اثر چوہان کو سیکرٹری جنرل منتخب کردِیا۔ 7 مارچ 1977ء کو ملک بھر میں عام انتخابات ہُوئے پھر، ہر صوبے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کے لئے پارٹی ٹکٹوں کے اجراء کا مرحلہ آیا ۔ پنجاب اسمبلی میں خواتین کے لئے 12 مخصوص نشستیں تھیں ۔ ڈاکٹر مبشر حسن اور مولانا کوثر نیازی نے ’’ایکا ‘‘ کر لِیا ۔ وہ پنجاب کی منتخب سیکرٹری جنرل نجمہ اثر چوہان کو پارٹی ٹکٹ کے لئے نااہل قرار دینے میں کامیاب ہوگئے اور شکست خوردہ مس ناصرہ کھوکھر کو پارٹی ٹکٹ دِلوا دِیا۔ بیگم نجمہ اثر چوہان نے پاکستان پیپلز پارٹی اور سیاست چھوڑ دِی۔ بیگم نجمہ اثر چوہان نے 10 سال بعد صِرف ایک بار مارچ 1986ء میں باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں جناب محمد حنیف رامے کی درخواست پر اُن کی پارٹی ’’ پاکستان مساوات پارٹی‘‘ کے جلسہ ٔ عام میں اپنی زندگی کی آخری تقریر کی اور حسب ِ سابق ، ’’جرنیلوں جاگیر داروں اور عُلمائے سُو ‘‘کی خوب خبر لی۔ رات کو پولیس مجھے پکڑ کر لے گئی اور پھر تین دِن بعد گھر چھوڑ گئی۔ دسمبر 1993ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن محترمہ بے نظیر نے (اپنی والدۂ محترمہ ) بیگم نصرت بھٹو کو برطرف کر کے خود چیئرپرسن کا عہدہ سنبھال لِیا ،نہ جانے کیوں ؟۔ پھر وزیراعظم کے میڈیا ایڈوائزر سیّد حسین حقانی نے ، وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے میری ملاقات کرائی ، پھر اُنہوں نے اپنے دورۂ چین کے موقع پر مجھے بھی اپنی میڈیا ٹیم میں شامل کرلِیا۔ وہاں یہ ہُوا کہ "Beijing Hotel" میں مرحوم منّو بھائی پیپلز پارٹی کے دانشور بشیر ریاض کو ساتھ لے کر میری "Table" پر آئے اور بولے ’’اثر چوہان!۔ تُم نے اپنے روزنامہ ’’ سیاست‘‘ میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بہت کچھ لِکھا اب تمہیں اُن کی بیٹی کے ساتھ دورہ ٔچین کے دورے پر آ کر شرم نہیں آئی؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ منّو بھائی !۔ اگر بے نظیر صاحبہ نے میرے والد صاحب کے خلاف کچھ لکھا یا بولا ہوتا تو ، مجھے واقعی شرم آنا چاہیے تھی۔ اب آپ محترمہ وزیراعظم سے بات کریں؟‘‘ ۔ 3 اگست 2008ء کو سعودی عرب میں مقیم میری بیٹی سائرہ قاسم مرزا کے گھر آگ لگ گئی ۔ سائرہ کا سارا جسم جھلس گیا ۔ میرے داماد قاسم احمد مرزا نے اُس کا سعودی عرب اور اسلام آباد میں علاج کرایا۔ اُن دِنوں انفارمیشن گروپ میں میرے محسن اوّل وفاقی سیکرٹری صحت سیّد انور محمود نے بھی کافی شفقت کی۔ سائرہ تو مکمل صحت یاب ہوگئی لیکن نجمہ اثر چوہان 11 اکتوبر 2008ء کو انتقال کر گئیں۔ نجمہ کی قبر اسلام آباد میں ہے اور اُس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مجھ سے زیادہ میری بیٹی عاصمہ ، اُس کے میاں معظم ریاض چودھری اور بیٹے علی امام پر ہے ۔ دُبئی سے میرا بیٹا شہباز علی چوہان ، اُس کی بیگم عنبرین چوہان اور سعودی عرب سے آ کر میری بیٹی سائرہ اُس کا میاں قاسم احمد مرزا اور بیٹا جبرائیل احمد مرزا مختلف اوقات میں حاضری دیتے ہیں ۔ پنجابی کے پہلے شاعر اور چشتِیہ سلسلے کے ولی بابا فرید شکر گنج ؒ نے کہا تھا … ’’جند ووہٹی ،مرن وَر،لے جا سی پرنائ‘‘ یعنی … ’’جان ۔ دُلہن ہے اور ملک الموت دُلہا اور وہ اُسے بیاہ کر لے جائے گا‘‘ ملک الموت ،مجھ اکیلے کا ہی رقیب نہیں‘ وہ تو دُنیا کے ہر زندہ انسان کا رقیب ہے‘‘۔ آج تو مَیں جنابِ بھٹوکی جمہوریت ؔزدہ اپنی بیگم نجمہ اثر چوہان کو یاد کر رہا ہوں!۔