1981-82ء اخبار کا لوکل ایڈیشن صبح دو ڈھائی بجے پریس میں چھپنے چلا جاتا تھا زیر زمین پرنٹنگ مشین حرکت میں آتی تو ہم سب نیوز روم کے ارکان ایک ایک پرچہ اٹھاتے، اپنے تخلیق کردہ اخبار کو پیار سے دیکھتے، پڑھتے اور پھر سب قافلے کی شکل میں پیدل لکشمی چوک ریفریشمنٹ کیلئے روانہ ہوجاتے۔ ہم چوک کے کارنر پر چوہدری کے ہوٹل کے باہر کرسیوں پر براجمان ہوتے، کوئی کھانے کا آرڈر دیتا ‘کوئی چائے کا، کوئی پان کھا رہا ہوتا اور کوئی سگریٹ کے کش لگاتا دکھائی دیتا ، ہفتے میں دو تین دن ہم سب اخبار مارکیٹ کا چکر بھی لگاتے تھے ،ہاکر حضرات لیٹ ہوجانے کے باوجود اس اخبار کا انتظار کرتے جونہی پہلی وین اخبار لے کر مارکیٹ پہنچتی ہاکراس کا گھیراؤ کر لیتے، یہ مناظر ہمارے خون کو گرماتے، ہماری تخلیق کی پذیرائی ہی ہماری اصل کمائی تھی، ہمارے جذبات ایسے ہوتے گویا یہ ہمارے باپ کا اخبار ہے، ایجنٹ حضرات ہماری خوب آؤ بھگت کرتے،ایک آدمی ہماری خدمت پر مامور ہوتا جو ہمیں ناشتے کی برانڈڈ دکانوں پر لے جاتا، نہاری، پائے کھد، مغز دیسی گھی کا تڑکا لگا کر کھلائے جاتے، اور تندور سے نکلتے ہوئے گرم گرم کلچے اور نان اور پھر لسی کے گلاس،ہم وہیں بیٹھے بیٹھے تمام معاصر اخبارات کا جائزہ بھی لے لیتے ۔ایک فائدہ اور بھی تھا اخبار مارکیٹ میں جانے کا۔ ہم وہاں سے اپنی اپنی پسند کے رسائل اور میگزین بھی اٹھا لیتے جن کی پیمنٹ بھی ہمارے ایجنٹ ہی کیا کرتے ۔ اس پوری ٹیم میں کوئی لمبی تان کے سونے والا نہ تھا، شام چار بجے ہی یہ ٹیم آفس پہنچ کر اگلے دن کے اخبار کی تیاری شروع کر دیتی تھی۔ اس نائٹ شفٹ گروپ میں ،اطہر مسعود،سرفراز شکیل، پرویز ساہی، طاہر چوہدری،سید عبدللہ، آصف راجہ، سعید مان، میاں خلیل ،سجاد انور ، عبدالرحمن جامی، امتیاز الحق اور ٹیلنٹڈ سہیل سرور وڑائچ کے نام مجھے یاد ہیں، جس دن ہم لکشمی چوک والے ڈیرے پر بیٹھتے تو میں وہاں بلا ناغہ ایک تئیس چوبیس سال کے درویش ٹائپ لڑکے کو دیکھتا جو مسلسل سگریٹ نوشی کرتا تھا ،اسے ہم سگریٹ خور بھی کہہ سکتے ہیں، جب سگریٹ کا آخری کش لیتا تھا تو زمین پر کبھی راکھ گرتے نظر نہیں آتی تھی ،اس راکھ کو بھی اپنے حلق میں اتار دیا کرتا تھا،اس کے سامنے چائے کا ایک خالی کپ موجود ہوتا، مجھے اس میں لینن اور مارکس نظر آنے لگا۔ میں سوچتا اس کا کوئی گھر بار نہیں؟یہ کسی اور شہر سے آیا ہوا ہے یا کوئی بھٹکا ہوا بچہ ہے؟ یہ معمہ ایک دن حل ہو گیا، اس داڑھی بردار کو میں نے اپنے ہی دفتر میں زبیر رانا کے ساتھ دیکھ لیا، زبیر رانا نے ایک سیل بنا رکھا تھا اور یہ نوجوان اس سیل کا ممبر تھا، اس سیل کے ارکان شہر کے مختلف علاقوں میں جاتے اور لوگوں کے مسائل کا جائزہ لیتے پھر اس کی رپورٹ چھاپا کرتے تھے، اگلی رات دیر گئے ہم پھر لکشمی چوک میں اسی ہوٹل کے باہربیٹھے تھے اور وہ لڑکا بھی اپنی مخصوص کرسی پر موجود تھا، میں نے اطہر مسعود سے کہا،، یہ تو پتہ چل گیا یہ لڑکا کرتا کیا ہے، اب میں یہ کھوج لگانا چاہتا ہوں کہ یہ دن چڑھتے اس ہوٹل سے اٹھ کر جاتا کہاں ہے؟ اطہر مسعود کا جواب تھا، چھڈو جی، شاہ صاحب! تسیں ایس مسکین کولوں کیہہ لینا ایں؟ میں نے اس کا تعاقب کیا وہ حسب معمول دنیا و مافیہا سے بے خبرسگریٹ سلگائے ہوئے لاہور ہوٹل کی جانب روانہ ہوا ابن صفی کے ناول پڑھ پڑھ کر میں بھی آدھا کرنل فریدی بن چکا تھا اور یوں محسوس ہورہا تھاجیسے میں کسی بڑے مشن کو سر کرنے جا رہا ہوں۔ وہ لاہور ہوٹل سے پہلے چٹان بلڈنگ میں داخل ہوا، آغا شورش کاشمیری کی اس عمارت کا چپہ چپہ میرا دیکھا ہوا تھا، آغا صاحب اور میرے والد نعیم ہاشمی صاحب دونوں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کے شاگرد تھے، دونوں ہی جب موچی دروازے میں تحریک ختم ِنبوت یا مجلس احرار کا جلسہ ہوتا ‘مجمعے کو گرمایا کرتے تھے۔ نعیم ہاشمی فلم ایکٹر بن گئے اور شورش کاشمیری ایک بڑے خطیب، شاعر اور صحافی کہلائے۔اسی نسبت سے میں بھی چاچا جی شورش کاشمیری سے ملنے جایا کرتا تھا۔ اب وہ درویش نما لڑکا عمارت کی سیڑھیاں چڑھتا ہے اور میں اس کے پیچھے پیچھے ہوں، اس یقین کے ساتھ کہ لڑکا پیچھے مڑ کے نہیں دیکھے گا، سیڑھیاں ختم ہوتے ہی وہ فلو رکے بائیں ہاتھ مڑتا ہے، میں سوچتا ہوں کہ یہ تو مقبول عام فلمی میگزین ممتاز کا آفس ہے، وہ دروازے پر ہاتھ رکھتا ہے اوردروازہ کھل جاتا ہے، بالکل کھل جا سم سم کی طرح،وہ اندر داخل ہوگیا۔ دروازہ معمولی سا کھلا رہ گیا۔ دو منٹ بعد میں نے دروازے کے سوراخ سے اندر جھانکا تو وہ کاپی پیسٹنگ ٹیبل پر ردی اخبار ، رسالے بچھاتا ہوا نظر آیا،پھر وہ سلگے ہوئے سگریٹ سمیت اس میز پردراز ہو گیا،میری جاسوسی مکمل ہو چکی تھی۔ دن کافی چڑھ آیا تھا میں وہاں سے پیدل اچھرے کی طرف چل پڑا۔ ٭٭٭٭ اگلے روز میں زبیر رانا سے ملا ،اس سے اسکی ٹیم میں شامل اس لڑکے کے بارے میں معلومات لیں، اس کا کہنا تھا لڑکا بہت ذہین اور کام کرنے والا ہے اس کی تربیت کر رہا ہوں، بہت بڑا کامریڈ بنے گا، اس نے تھوڑی دیر بعد مجھے اس سے ملوا بھی دیا۔ اگلے ہی دن وہ لڑکا نیوز روم میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے بڑی مہارت اور چابک دستی سے کام کر رہا تھا، اس کا انگلش سے اردو ترجمہ پرفیکٹ تھا، سرخیاں خود نکال کر دے رہا تھا،اسے یہ بھی پتہ تھا کہ کس خبر کی کیا اہمیت ہے۔ اطہر مسعود صاحب نے بھی یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا ، اس سے پہلے اس نے کبھی کسی اخبار میں کام نہیں کیا تھا۔ یہ سب کچھ اس نے اردو انگریزی اخبارات پڑھ پڑھ کر سیکھا تھا۔ چند ہفتوں کے بعد وہ ہماری ٹیم کا ایک فعال رکن بن چکا تھا۔ نیوز روم میں اس کی پہلی دوستی شاید شاہین قریشی سے ہوئی، میں نے اسے پیشکش کی کہ وہ چاہے تومیرے گھررہ سکتا ہے۔اگلے چند دنوں کے بعد ہی وہ ہمارے گھر کا ایک فرد بن چکا تھا۔ اس زمانے میں، ہارون رشید، مہتاب ولی چاولہ، شمیم حیدر، سعید مان بھی میرے اسی گھر میں رہ رہے تھے، میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر اختر نعیم ہاشمی ان دنوں میو اسپتال میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے اور انہوں نے چوک گنگا رام اسپتال کے قریب ڈاکٹرز کے ہاسٹل میں رہائش رکھی ہوئی تھی۔ اس جگہ پر ان دنوں گنگا رام کی ایمرجنسی کا بورڈ لگا ہوا ہے،ہماری باقی فیملی فیروز پور روڈ پر غازی روڈ پر دوسرے گھر میں قیام پذیر تھی، اسی لئے اچھرے والا گھر بے گھر چھڑوں کا ڈیرہ بنا ہوا تھا، زیادہ لوگوں کے جھرمٹ میں رہنا میری فطرت کا بھی خاصہ رہا ہے، میری زندگی میں شور اور ہنگامے شامل نہ ہوتے تو شاید میں کسی جگہ تھک ہار کے بیٹھ جاتا۔ اس لڑکے نے دنوں میں ہی کل پرزے نکالنے شروع کر دیے، اخبار میں اپنی خداداد صلاحیتوں سے اپنی جگہ بنانا شروع کی۔ میرے تمام حلقہ احباب سے اس کا میل جول ہوگیا، ڈاکٹر اختر نعیم بھی قریب ہوگیا، اس کی صلاحیتیں سب پر اشکار ہو رہی تھیں۔ دفتر میں ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ اس نے میرے ساتھ صحافیوں کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا، مارشل لاء کا زمانہ تھا، جنرل ضیاء الحق کے صحافتی ٹولے نے مال روڈوالے پریس کلب پر قبضہ کر لیا تو لاہور کے صحافیوں کی اکثریت نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ سوال یہ تھا کہ جرنیل کے باغی صحافی کہاں بیٹھیں؟ ہم نے پریس کلب کے الیکشن کرائے اور اسی لڑکے کو اس پریس کلب کا سیکرٹری منتخب کرا لیا جس پریس کلب کی عمارت دشمنان صحافت کے زیر قبضہ تھی، ہم نے کئی مقامات پر عارضی پریس کلب بنانے کی کوششیں کیں، لیکن جہاں بھی جاتے اس عمارت کے کرائے، بجلی کے بل اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے سوالات کھڑے ہوجاتے۔پھر ایک دن میں اس لڑکے کو راشد بٹ مرحوم کے دفتر لکشمی مینشن لے گیا، اسے ساری کہانی سنائی تو اس نے پریس کلب کیلئے ایک معقول رقم دیدی، اس رقم سے شبستان سینما میں جگہ کرائے پر لے لی گئی، ایک ساہیوال کے کونسلر تھے چوہدری ممتاز حسین انہوں نے ہمارے والے پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی اور جاتے جاتے اس لڑکے کو دو ماہ کا خرچہ بھی دیے گئے۔ یہ وہی چوہدری ممتاز حسین تھے جو بعد میں پنجاب کابینہ میں وزیر تعلیم بنے۔ اس طرح کے اور بھی کئی واقعات رونما ہوتے رہے اور وہ لڑکا آگے اور مسلسل آگے بڑھتا رہا، وہ اسی اخبار کا شفٹ انچارج بنا، نیوز ایڈیٹری سے ایڈیٹر شپ کا سفر طے کیا، اس اخبار کے سب سے بڑے متحارب اخبار کا نیوز ایڈیٹر بنا تو اس وقت بھی میرے گھر میں رہ رہا تھا۔ دونوں اخبارات کے مالکان اور ایڈیٹوریل اسٹاف اس بات سے واقف تھے مگر اعتماد کی وہ فضاء تھی کہ کسی نے یہ نہ کہا کہ دو بڑے اور مخالف اخبارات کے ایڈیٹرز ایک ہی چھت تلے کیوں رہ رہے ہیں۔۔ یہ تھا جواد نظیر کی زندگی کا ابتدائیہ ، باقی سارے ابواب زندگی اس نے خود لکھے۔ اس نے کئی قلعے فتح کئے اور اسکی کسی فتح میں میرا کوئی کردار نہیں رہا،اس نے اپنے کئی عکس بنائے وہ اپنے ہر عکس میں زندہ رہنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کبھی کسی انسان کے دوسائے اور دو ہمزاد نہیں بنتے، ایک ہی وقت میں بہت سارے ہیولوں میں زندہ نہیں رہا جا سکتا۔ وہ کئی بار پہاڑ پر چڑھا، میں نے کبھی اسے آواز نہ دی، اب تو وہ اس جہاں میں چلا گیا ہے جہاں کوئی آواز جاتی ہی نہیں۔ یہ میں اس کی میت کے سرہانے کھڑا سوچ رہا تھا۔