ہمارے چیف جسٹس محترم آصف سعید کھوسہ ۔۔۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کیس، میں برطانوی فوجی ڈکٹیٹر جنرل اولیور کرامویل کی آمریت کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی تفصیل سے جنرل کرامویل کی لاش کو نکالنے اور پھر اُس کے ڈھانچے سے عدالت میں کئے گئے سوال و جواب اور پھر برطانوی عدالت سے لاش کو پھانسی دینے کے فیصلے کا حوالہ دے رہے تھے تو یقینا اُن کی جنرل کرامویل کیس پرآبزرویشن دیتے ہوئے یہ واضح پیغام دینا تھا کہ اگر اپنی بیماری کے سبب جنرل پرویز مشرف دوبئی سے پاکستان نہیں آتے تو ۔ ۔ ۔ بیماری کی وجوہ کے سبب انہیں مہلت نہیں دی جا سکتی۔ ۔۔ کیونکہ ہمارے محترم چیف جسٹس کی آبزرویشن کے بقول جب لاش کے ڈھانچے کو پھانسی دی جاسکتی ہے تو ۔ ۔ ۔ ایک ’’بیمار‘‘شخص کو اُس کی غیر موجودگی میں کیوں سزا نہیں دی جاسکتی۔ایک بار پھر میرے منہ میں خاک جنرل کرامویل کی لاش کو پھانسی دینے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ۔انہوں نے اعلیٰ عدالت کو اس حد تک جانے کا عندیہ بھی دیا کہ اگر خدانخواستہ سابق صدر جنرل موصوف اپنی علالت کے سبب اس جہان ِ فانی سے رخصت ہو بھی جاتے ہیں تو اُن کی اس صورت میں بھی جان بخشی نہیں ہوگی۔یعنی اُن کی اعلیٰ عدالت برطانوی فوجی ڈکٹیٹر جنرل اولیور کرامویل کی تاریخ دہرائے گی۔اور اب تو تازہ ترین اطلاع کے مطابق سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے بارے میں یہ حتمی فیصلہ دیا ہے کہ وہ 2مئی تک سپریم کورٹ میں پیش ہو جائیں۔ورنہ وہ دفاع کے حق سے بھی محروم کردئیے جائیں گے۔مگر بصد احترام میر ی پہلے بھی چیف جسٹس آف پاکستان سے یہ درخواست تھی کہ ’’مشرف کیس‘‘ وطن عزیز میں فوجی آمروں کی پارلیمنٹ کو لپیٹنے کی سیاہ تاریخ کا باب ختم کرنے کے لئے محض اسے ’’پرویز مشرف‘‘تک محدود نہ رکھیں۔بلکہ ان کی ڈکٹیٹر شپ پر مہر ثبت کرنے ، سہولت کاری کا کردار ادا کرنے اور شادیانے بجانے والوں کو بھی ایسی ہی عبرتناک سزا دیں۔ ۔ ۔ ساتھ ہی اس وقت اُ ن کے ساتھ رہنے والے سابق وزراء جو اُن کی غیر آئینی حکومت میں خوب خوب مال سمیٹتے رہے۔جب آپ ڈیڑھ سو سال پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل کرامویل کا عدالتی حوالہ دے رہے ہیں تو پھر پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کی لاش کے ڈھانچے کو پھانسی دی جائے یہی نہیں بلکہ فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے مارشل لاء کو آئین کے مطابق قرار دینے والے ججز کے ساتھی بھی یہی سلوک ہو۔قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک اپنے زوروں پر تھی تو 1968ء کے آتے آتے وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکا رتھے۔ ۔ ۔ شہاب صاحب کراچی میں ایوب خان کی اُس آخری پبلک تقریب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کراچی کے میٹروپول ہوٹل میں ، صدر ایوب خان کو شرکت کرنا تھی۔شہاب صاحب کے بقول انہوں نے ایوب خان کو گاڑی سے اترتے تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ہوٹل میٹروپول میں جاتے دیکھا۔بعدازاں لڑکھڑاتی زبان میں انہو ں نے تقریب سے خطاب کیا اور پھر اُسی رات اُن پر دل کا دورہ پڑا۔ ۔ ۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کا انتظار اُن کے جانشین جنرل یحییٰ خان کو ایک عرصے سے تھا۔جنرل ایوب خان کے بستر سے لگتے ہی ’’ایوان ِ صدر‘‘ کی کمان جنرل یحییٰ خان نے سنبھال لی اور پھر باضابطہ طور پر 30مارچ1969ء کی شب اُن کے ہاتھ میں وہ خط تھا ۔ ۔ ۔ جس میں جنرل ایوب خان نے اپنی بیماری کے سبب اقتدار جنرل یحییٰ خان کو سونپنے کا آئینی اختیار بہ راضی سونپ دیا تھا۔جنرل یحییٰ خان 31مارچ 1969ء سے 20دسمبر1971ئتک صدر ِ مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔دسمبر1970ء میں انہوںنے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان میں پہلی بار عام انتخابات کرانے کا کارنامہ انجام دیا۔مگر اس پہلے عام انتخابات نے قیام ِ پاکستان کے محض 23سال بعد اُ س قومی المیے کو جنم دیا جسے ’’سقوطِ ڈھاکہ‘‘ کہتے ہیں۔خود اُن کے بنائے ہوئے 1962ئکے آئین کے تحت انہیں اقتدار اُس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی کو سونپنا تھا۔جو آئین میں دیئے گئے اختیارات اورطریقہ ٔ کار کے تحت خود صدارت کا عہدہ سنبھال کر نئے انتخابات کرا دیتے۔۔ ۔ مگر جنرل یحییٰ خان نے اکتوبر1958ء کی تاریخ کو دہراتے ہوئے ایک بار پھر مارشل لاء نافذ کر کے اسمبلیاں توڑ کر کلی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔اور المیہ دیکھیں کہ محترم چیف جسٹس محترم آصف سعید کھوسہ صاحب کہ اس وقت کے جج یقینا پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے انتہائی قابل احترام اور معزز چیف جسٹس حمود الرحمان نے یحییٰ خان کے اس غاصبانہ قبضے پر اپنے پیش رو جسٹس محمد منیر کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل یحییٰ خان کے اس اقدام کو آئینی اور قانونی قرار دیا۔ماشاء اللہ اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر سینکڑوں ایکڑ پر ہماری پارلیمنٹ کی عمارت کھڑی ہے۔اُس کے ارد گرد سر سبز و شاداب احاطہ اور لان ہے۔تو پھر کیوں نہ ان سب کے سنہری مجسمے عبرت کا نشان بنانے کے لئے نصب نہ ہونا چاہئیں اور ساری اسکرینوں پر اس کی Liveکوریج ہو تاکہ حقیقی معنوں میں آپ کا خواب پورا ہو۔جس کا آغاز آپ سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے کرنا چاہتے ہیں ۔ اور ہاں،محترم چیف ، یہ تو آغا ز ہوگا۔ابھی پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فوجی ڈکٹیٹر جنر ل ضیاء الحق کے دور ِ سیاہ کی طرف بھی تو آنا ہے۔