مسلم لیگ (ن) کے رہبر میاں نواز شریف کے بغرض علاج جیل سے سروسز ہسپتال منتقل ہونے سے نئی قیاس آرائیوں نے جنم لیا ہے، ڈیل اور ڈھیل کی بحث پھر چل پڑی ہے۔ حکومتی اتحادی ون مین پارٹی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید تو شروع سے ہی کہتے آ رہے ہیں کہ ڈیل کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایک وفاقی وزیر تو میر ے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے‘ میں یہ دعویٰ بھی کر چکے ہیں کہ ان کے علم میں ہے مسلم لیگ (ن) کی کس شخصیت نے کس سے این آر او کے لیے رابطہ کیا۔ ایک بات تو مصدقہ ہے کہ نواز شریف کی صحت اتنی خراب ہے کہ انھیں ہسپتال منتقل کرنا ضروری ہو گیا تھا اور یہ ان کا معائنہ کرنے والے مختلف میڈیکل بورڈز کی رائے ہے۔ ان ڈاکٹروں کا ڈیل، ڈھیل یا این آر او سے کوئی تعلق نہیں وہ خالصتاً یہ رائے دے رہے ہیں کہ میاں نوازشریف انتہائی علیل ہیں ان کا دو مرتبہ دل کا آپریشن ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں ذیابیطس کے مریض ہیں، گردے میں پتھری ہے اور انھیں گاؤٹ کا عارضہ بھی لاحق ہے۔ مسلم لیگ کے رہنما سابق وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا دعویٰ ہے کہ میاں صاحب کے علاج میں غفلت برتی جا رہی ہے اور تیمارداری کی اجازت نہیں دی جا رہی حالانکہ غفلت برتنے کاالزام درست نہیں لگتا کیونکہ حکومت نے ان کو سروسز ہسپتال منتقل کردیا ہے جہاں خود احسن اقبال بھی ایک حملہ آور کی گولی سے زخمی ہو کر زیر علاج تھے۔ البتہ اس حوالے سے میاں نواز شریف کو ضرور رعایت دینی چاہیے کہ تیمارداری کے لیے ان کی صاحبزادی یا کوئی اور ان کے ساتھ موجود ہو۔ یہ قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں کہ شاید میاں نواز شریف کو بغرض علاج بیرون ملک یعنی لندن جانا پڑے کیونکہ ان کے معالج وہیں کے ہیں۔ مریم نواز کا کہناہے کہ میاں صاحب واپس جیل جانا چاہتے ہیںجبکہ لیگی رہنما رانا تنویر نے ہسپتال کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم میاں صاحب کا علاج لندن سے کروانا چاہتے ہیں۔ ویسے اگر میاں صاحب پاکستان میں ہی اپنا علاج کرا سکتے ہیں تو انھیں لندن نہیںجانا چاہیے کیونکہ اس سے سیاسی طور پر انھیں نقصان ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی جس سے آج کل مسلم لیگ (ن) کا ہنی مون چل رہا ہے کے کچھ رہنما جن میں اعتزاز احسن اور چودھری منظور پیش پیش ہیں، بھی یہ کہہ رہے ہیںکہ میاں نوازشریف کی ہسپتال منتقلی ڈیل کا پیش خیمہ ہے جبکہ خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ اگر سابق وزیراعظم کی طبیعت خراب ہے تو انھیں باہر جانے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ یہ افواہیں جنہیں شیخ رشید نے خاص طور پر تقویت دی کہ شریف فیملی این آر او کے لیے کوشاں ہے، کئی ماہ سے گردش کر رہی ہیں لیکن مبصرین یہی سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ این آراو کس سے مانگا جا رہا ہے اور کون دے گا ؟، نیز کوئی مانگ بھی رہا ہے کہ نہیں؟۔ دراصل این آر او قومی مصالحتی آرڈیننس کا مخفف ہے جوسابق آمر مطلق جنرل پرویز مشرف کی ایجاد ہے اور یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے لیے کیا گیا تھا، 5 اکتوبر 2007ء کو نافذ ہوا تھا جس کے 13 روز بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کراچی پہنچی تھیں جہاں ان کے استقبالی جلوس پر دہشت گردوں کے حملے میں 180 کارکن جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس آرڈیننس سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ الطاف حسین، فاروق ستار، بیگم نصرت بھٹو، جہانگیر بدر، آغا سراج درانی، آفتاب شیرپاؤ اور چودھری احمد مختار سمیت 22 سیاستدانوں نے فائدہ اٹھایا تھا۔ اس آرڈیننس سے 46 وہ بیوروکریٹس اور سرکاری ملازم جو نیب کیسز میںپھنسے ہوئے تھے بھی فیض یاب ہوئے ان میں سابق سفیر برائے امریکہ حسین حقانی، سابق چیف سیکرٹری پنجاب بریگیڈیئر (ر) اسلم حیات قریشی، احمد صادق اور جاوید قریشی جیسی نمایاں شخصیات شامل تھیں۔ ویسے تو میاں نواز شریف کو بھی اس این آر او سے بلواسطہ فائدہ حاصل ہوا۔ اس وقت سعودی عرب نے پرویز مشرف سے کہا تھاکہ جب دیگر شخصیات کو آنے کی اجازت دے رہے ہیں تو نواز شریف خاندان اور برادر خورد شہبازشریف جنہیں پہلے واپسی کی کوشش ناکام بنا کر واپس کردیا گیا تھا، کو بھی آنے کی اجازت دیں جس کے بعد وہ اہل خانہ کے ساتھ پاکستان لوٹ آئے۔ نواز شریف این آر او کے ذریعے نہیں بلکہ دس سال کی جلاوطنی کا تحریری معاہدہ کر کے 10 دسمبر 2000ء کو اپنے تمام اہل خانہ سمیت سعودی عرب چلے گئے تھے، یہ ڈیل سعودی عرب کی کوشش سے ہوئی جس کے پیچھے امریکی صدر بل کلنٹن، سعودی فرمانروا شاہ فہد اور لبنان کے وزیراعظم رفیق حریری تھے۔ میاں صاحب نے 83 لاکھ ڈالر مالیت کی جائیداد اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ اپنی جان چھڑانے کے لیے ادا کیا تھا۔ برادر خورد شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے ساتھ طویل جلاوطنی میں جانے کو تیار نہیں تھے لیکن ان پر واضح کر دیا گیا کہ اگر آپ معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے تو پھر یہ ڈیل نہیں ہو پائے گی اور شریف فیملی کا کوئی رکن سعودی عرب نہیں جا پائے گا۔ شہباز شریف نے روانگی سے قبل اسلام آباد ائیرپورٹ پر ڈی جی ایم آئی میجر جنرل احسان الحق سے ملاقات کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انھیں یہیں رہنے دیا جائے لیکن ان کی ایک نہ چلی اور انھیں بھی جلاوطنی میں جانا پڑا۔ اس وقت صورتحال خاصی مختلف ہے۔ موجودہ صورتحال میں ڈیل کی افواہوں کو اس لیے تقویت ملی رہی ہے کہ میاں نواز شریف کوئی یاسیت بھرا شعر یا لطیفہ سنانے کے علاوہ سیاسی معاملات پر مہر بلب ہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز جو عام انتخابات تک تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کو کوسنے میں اپنے والد سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں یکسر خاموش ہیں۔ اسی بنا پر ایسی قیاس آرائیاں کہ شریف خاندان ڈیل کرنا چاہتا ہے، گردش کرتی ہیں۔ نواز شریف نے نیب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائرکررکھی ہے اور یہ درخواست بھی دائر کی گئی ہے کہ خرابی صحت کی بنا پر انھیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔ اسے بہت سے لوگ ڈیل کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی ماحول میں کسی قسم کی ڈیل ممکن بھی ہے؟۔ اس امر کے باوجود کہ تحریک انصاف کی حکومت اور فوجی قیادت مکمل طور پرایک ہی صفحے پر ہے اور کہا جاتا ہے کہ بنیادی فیصلے مقتدر اداروں کی آشیرباد سے ہوتے ہیں۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف کی طرح کوئی فوجی آمر حکمران نہیں ہے۔ تاہم ان کی جگہ صدر عارف علوی یقینا عمران خان اور عسکری قیادت کے درمیان کسی ڈیل پر اتفاق رائے ہونے اور عدلیہ کی اجازت کے بعد اس کا اعلان کر سکتے ہیں۔ اگرچہ تمام فریق یہی کہہ رہے کہ ڈیل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یہ ناممکنات میں بھی نہیں۔ میاں نواز شریف جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ جب 2000ء کے بعد وہ جدہ کے سرور پیلس میں جلاوطنی کے دن گزار رہے تھے تو ایک سینئر صحافی نے جو مشرف کا پیغام لے کر وہاں گئے تھے کہا کہ آپ پرویز مشرف کی17 ویں ترمیم کو مان لیں اور شہباز شریف کو واپس بھیج دیں اور خود لندن جا کر برگر کھائیں تو میاں صاحب نے کورا جواب دے دیا۔ جب صحافی نے سوال کیا کہ میاں صاحب اگر آپ اتنے ہی آمریت کے مخالف ہیں تو آپ ڈیل کر کے جدہ کیوں آگئے ہیں پاکستان رہ کر مقابلہ کرتے جس پر میاں صاحب نے کہا، اٹک قلعے میں بہت سردی لگتی تھی۔ کوئی ڈیل ہو جانا انہونی بات نہیں، جب میاں نواز شریف ماضی میں ڈیل کر کے سعودی عرب گئے تھے تو انہوں نے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی حتیٰ کہ ان کے دست راست مشاہد حسین سید جو پنجاب ہاؤس میں قید تنہائی میں تھے، انہیں عید کی نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تو انہیں وہاں یہ حیران کن خبر ملی کہ میاں نواز شریف کب کے فیملی کیساتھ اڑان بھر کر جدہ پہنچ چکے ہیں۔