وہ اس سرزمین میں آباد سب سے معزز اور بڑے قبیلے دوس کا سردار تھے، جس کے بارے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ''یمن کے لوگ صحیح ایمان رکھتے ہیں اور اسے جلد اپناتے ہیں (بخاری)، یمنی باشندے سکون و دانش کی دولت رکھتے ہیں (بخاری)، یمنی شریف اور نرم دل ہوتے ہیں (بخاری) اورآپ ؐنے دعا دیتے ہوئے کہا، '' اے اللہ ہمارے ملک شام اور ملک یمن میں برکت عطا فرما (بخاری)۔ ان کا نام طفیلؓ بن عمرو دوسی تھا۔ پورے عرب میں جو دوسخا کی شہرت رکھنے والے جن کے ہاں مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے دیگیں ہر وقت چولہوں پر چڑھی رہتیں۔ پورے قبیلے کا عالم یہ تھا کہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے، خوفزدہ لوگوں کو امان دیتے اور پناہ طلب کرنے والوں کو اپنی پناہ میں لیتے۔ جبکہ طفیلؓ بن عمرو کا شُہرہ تو ایک قادر الکلام حساس شاعر کا بھی تھا۔ انہوں نے مکہ میں سید الانبیاء ﷺ کی آمد اور حق و باطل کی کشمکش کا سنا تو اپنے علاقے تہامہ کو چھوڑ کر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکہ پہنچ کر وہاں کے مشرک سرداروں نے انہیں گھیر لیا اور کہا کہ یہاں ایک شخص پیدا ہوا ہے اور جو خود کو نبی کہتا ہے۔ تم اس سے ہرگز مت ملنا، اس کی باتیں جادو کا اثر رکھتی ہیں اور اس کی زبان میں بلا کی تاثیر ہے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم پر اس کا جادو چل جائے گا اور تم اپنے قبیلے کی سرداری سے بھی جاتے رہوگے۔ قریش مکہ سے سب کچھ سننے کے بعد طفیلؓ بن عمرو کے دل میں سید الانبیاء ﷺ کو دیکھنے کی خواہش مزید جاگ اٹھی۔ وہ حرم کی طرف ایسے روانہ ہوئے کہ دونوں کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ کہیں آپ ؐ کی آواز کان میں نہ پڑ جائے۔لیکن ان کے کانوں میں سورۃاخلاص سورۃ فلق کی آواز جا ٹکرائی جو آپ ؐ اس وقت تلاوت کر رہے تھے۔ بے ساختہ کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے اور رسول اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے کوئی ایسی نشانی عطا کرے کہ جب میں اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دوں تو وہ قبول کرلیں۔ آپ ؐ نے دعا کی ''اللھم اجعل لہ آیتہ''۔ ''اے اللہ طفیل کو کوئی نشانی عطا فرما''۔ طفیلؓ کہتے ہیں کہ جب میں اپنی بستی کے قریب پہنچا تو میری دونوں آنکھوں کے درمیان ایک ایسی روشنی پیدا ہوگئی جو چراغ جیسی تھی۔ میں نے دعا کی کہ اے اللہ اسے میرے چہرے سے دوسری جگہ منتقل کردے، کہیں قبیلے والے یہ نہ سمجھ لیں کہ مجھے اپنا دین چھوڑنے پر یہ سزا ملی ہے۔ وہ روشنی میری لاٹھی کے سرے پر منتقل ہوگئی اور ایسے لگتا جیسے کوئی لٹکتی ہوئی قندیل ہے۔ اس نشانی کی برکت تھی کہ ان کے والد اور بیوی نے بلا چوں و چرا اسلام قبول کرلیا۔ طفیلؓ کہتے ہیں کہ مجھے اپنے قبیلے کے ایمان کے بارے فکر کھائے جا رہی تھی،میں نے درخواست کی جس پر آپ ؐ نے دعا فرمائی اور کہا جاؤ ان کو دعوت دو۔ میں قبیلے میں واپس آیا، اور اسلام کی طرف بلانے لگا۔اس دوران بدر، احد، خندق گزر گئے۔ خیبر کے معرکے کے وقت ہمارے قبیلے کے اسی گھرانے مسلمان ہو چکے تھے۔ مکہ فتح ہوا تو طفیلؓ نے رسول اکرم ﷺ سے عرض کی کہ انہیں خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے یمن کے لوگوں کے بت ''ذالکفین'' کو نذرآتش کرنے کی اجازت دیں۔ قبیلے کے لوگ انتظار کر رہے تھے کہ ابھی یہ اسے نذرآتش کرنے کے لیے آگے بڑھے گا تو آسمان سے بجلی گرے گی اور اسے خاکستر کر دے گی۔ طفیلؓ آگ لے کر آگے بڑھے اور کہتے جاتے تھے،'' میں تیرا پرستار نہیں ہوں، ہماری پیدائش تمہاری پیدائش سے افضل ہے، میں نے تیرے دل میں آگ بھر دی ہے''۔ بت نذر آتش ہوا تو پورا قبیلہ مشرف با اسلام ہو گیا۔ رسول اکرم ﷺ یمن کے دوس قبیلہ کے افرادکو ہمیشہ اپنے ہر لشکر میں میمنہ پر مقرر کرنے کا اعزاز بخشتے۔ یہ وہ یمن ہے جس سرزمین نے حضرت اویس قرنیؓ جیسے عاشق رسولؐ کو جنم دیا۔ جن کے لوگوں کے ایمان کو آپ ؐ نے بہترین ایمان اور ان کی حکمت کو بہترین حکمت قرار دیا (بخاری)۔ سیدنا امام حسین ؓ کے پوتے اور حضرت زین العابدینؓ کے بیٹے زید بن علی نے جب بنو امیہ کے خلاف خروج کیا تو کوفہ کے چالیس ہزار لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا ''خروجی لیضاجی خروج رسول اللہ ؐیوم بدر، یعنی زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہونا رسول اللہ ؐکی بدر میں تشریف آوری کے مشابہ ہے۔ لیکن جب حضرت زید بن علی نے جہاد کی دعوت دی تو کوفہ کے لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ ''آپ کا حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے بارے میں کیا خیال ہے''۔ حضرت زیدبن علی نے فرمایا '' میں نے اپنے گھرانے میں ان کے لئے خیر اور بھلائی کے سوا کچھ نہیں سنا۔ کوفے والے بولے، ہمارا امام تو حضرت باقر مدینہ میں ہیں، ہم ان سے پوچھیں گے۔ ایک سوارکو مدینہ روانہ کیا گیا۔ امام باقر نے فرمایا کہ'' زیدبن علی ٹھیک کہتا ہے''۔ کوفہ والوں نے پلٹ کر جواب دیا، انہوں نے آپ سے رشتہ داری کی وجہ سے رعایت کی۔ حضرت زید نے فرمایا '' ہم خانوادہ رسولؐ کے لوگ رشتہ داری کی وجہ سے حق نہیں چھپاتے''۔ جب یوسف ثقفی حضرت زیدبن علی کے سامنے لشکر لے کر آیا تو کوفہ کے لوگ ان کو چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ اس موقع پر حضرت زید بن علی نے فرمایا ''رفضو ناالیوم'' یعنی آج کے دن تم مجھے چھوڑ گئے ہو۔ سیدنا امام ابوحنیفہ ؒ کی دی گئی مماثلت کیسی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی کہ حضرت زیدبن علی کے ساتھ بھی اتنے ہی اصحاب جہاد کیلئے نکلے جتنے بدر میں رسول اکرم ﷺکے ساتھ تھے، یعنی تین سو تیرہ۔ حضرت زید بن علی کے ماننے والوں کو زیدیہ کہا جاتا ہے۔ یہ سب سے معتدل لوگ ہیں جو حضرت علیؓ کی فضیلت کے تو قائل ہیں لیکن حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کا بھی احترام کرتے ہیں اور تبراء اور سب و شتم کے قائل نہیں ۔ زیدیہ کے تمام عقائد جمہور مسلمانوں سے ملتے ہیں اور ان میں شیعہ سنی دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ زیدیہ ہی ہیں جن کی آج کے یمن میں اکثریت ہے۔ وہ تمام علاقے جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانے میں جنگیں یہاں گی یعنی عراق، شام اور یمن، آج یہ تینوں علاقے ایک منصوبے کے تحت فسادات کا شکار کئے گئے ہیں۔ ان تینوں میں مسلمانوں کے درمیان آپس میں خونریزی کو مسلسل ہوا دی جاتی ہے۔ ان تینوں علاقوں میں سے یمن کی ایک حوالے سے بہت زیادہ اہمیت ہے۔ حضرت ارطاۃؓ نے فرمایا کہ ''یمنی خلیفہ کے ہاتھ پر قسطنطنیہ فتح ہوگا اور ایک یمنی بادشاہ بیت المقدس سے ہند لشکر بھیجے گا جو ارض ہند کو فتح کریں گے۔ وہ وہاں کے بادشاہوں کو پابند سلاسل کر کے اپنے دربار میں حاضر کریں گے۔ اللہ تعالی ان لشکر والوں کی مغفرت فرما دے گا''(کتاب الفتن)۔ یہ دونوں پیش گوئیاں پوری ہونا باقی ہیں۔ یمن کے بارے میں صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی کتب حدیث میں ایک شخص جیجا ہ نامی کے خلیفہ بننے کا ذکر ہے جو غلاموں کی نسل سے ہوگا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ لیکن اس کی تقرری حضرت عیسٰی ؑ فرمائیں گے۔ اس میں یمن سے نکلنے والے ا ن لشکروں کا بھی ذکر ہے جو شام میں حضرت مہدی ؑکے ساتھ لڑیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ایک صدی سے اس خطے کو فسادات کی آگ میں جھونکا گیا ہے۔ 1918 میں جب پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کو شکست ہوئی تو یمن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جنوبی یمن پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا اور عدن کی اہم بندرگاہ اپنے پاس رکھ لی۔ لیکن شمالی یمن میں زیدیوں کے امام محمد حامد الدین جنہیں امام یحییٰ کہتے ہیں انہوں نے اپنی علیحدہ سلطنت کا اعلان کردیا۔ (جاری ہے)