یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا کہ جب تک موجودہ نظام برقرار ہے۔ اس نظام کے ہوتے ہوئے جب بھی احتساب کا عمل شروع ہو گا سیاستدان اور عوامی نمائندے بیمار پڑ جائیں گے اور پھر ان کی بیماری کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہوتا۔ یہ علاج کروانے لندن اور دوبئی جاتے ہیں موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے حقیقی قیادت بھی ابھر کر سامنے نہیں آ سکتی اور نہ ہی نچلی سطح سے قیادت کے ابھرنے کے مواقع میسر ہونگے یہ سب غیر جماعتی انتخابات کے ثمرات ہیں کہ جس کے تحت 1985ء میں عام انتخابات کروائے گئے تھے ان انتخابات نے غیر جماعتی کلچر کو جنم دیا اور پارلیمنٹ میں کاروبار حضرات کی بھاری تعداد عوامی نمائندوں کے روپ میں سامنے آئی۔ اس کاروبار ی کھیپ نے سیاست کے میدان میں اپنے قدم جمائے اور پورے نظام کو اپاہج کر کے رکھ دیا۔ حکومتی مشینری جو کہ بیورو کریسی پر مشتمل ہوا کرتی ہے یہ ان کے تابع ہو گئی جس نے کرپشن کی بنیاد رکھی اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ NROکا عمل بھی شروع ہوا جو کہ اب اپنی جڑیں مضبوط بنا چکا ہے آئین پاکستان میں کسی جگہ پر بھی NROکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔20اکتوبر 1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے خان عبدالقیوم خان‘ غوث بخش بزنجو‘ ارباب سکندر خان خلیل‘ مولانا مفتی محمود‘ سردار شوکت حیات‘ میجر جنرل جمال داد خان‘پروفیسر عبدالغفور اور سردار شیر باز مزاری اور شاہ احمد نورانی کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد آ ئینی امور پر سمجھوتہ کیا تھا اور پھر 10اپریل 1973ء کو آئین پاکستان منظور ہوا‘12اپریل 1973ء کو صدر مملکت نے آئین پاکستان کے حتمی مسودے پر دستخط کر دیے اور یوں یہ آئین 14اگست 1973ء کو پورے ملک میں نافذ ہو گیا اس آئین کے تحت موجودہ نظام چل رہا ہے ملک کے زیرک سیاستدانوں نے جدوجہد کر کے یہ آئین تیار کیا اور ایک صاف شفاف نظام کی بنیاد رکھی‘مگر بدقسمتی سے اس نظام کے ساتھ مل کر سب سیاستدانوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کھلواڑ کیا اور آج اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے پوری قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے‘اب کرپشن میگا کرپشن کی شکل میں سامنے آ رہی ہے اور احتسابی عمل مکمل طور پر ناکام ہوا ہے‘ اب نوابزادہ نصراللہ خان‘ ملک قاسم اور عبدالستار خان نیازی کے پائے کے صاف ستھرے سیاستدان موجود نہیں۔ اب کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت میں خاندانی آمریت اور موروثیت غلبہ حاصل کر چکی ہے‘زرداری ‘بھٹو ‘نواز شریف‘شہباز شریف یہ ہے موجودہ نظام میں ہماری سیاسی قیادت‘ ان کی پہچان کرپشن ہے مگر پھر بھی قوم انہیں اپنا قائد مانے تو یہ بدقسمتی ہے۔ اس سرزمین کی‘اس سیاسی قیادت نے اقتدار میں خاندانوں کی گرفت مضبوط بنانے کے لئے جو حربے استعمال کئے یہ اب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں‘جنرل پرویز مشرف نے اپنا اقتدار برقرار رکھنے کی خاطر پاکستان میں اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری نے دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹا پھر بھی محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو این او آر دے کرپاکستانی سیاست میں این آر اوکی بنیاد رکھی اس پورے عمل میں جن غیر ملکی طاقتوں نے اپنا کردار ادا کیا اس کی ایک جھلک امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر اور سیکرٹری آف اسٹیٹ Condoleezza Riceکی کتاب No Higher Honorکے صفحات نمبر 606سے لے کر 612میں دیکھی جا سکتی ہے ان صفحات میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح پاکستان کی داخلی سیاست میں امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات نے مداخلت کی اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے لئے این آر اوکے عمل کو یقینی بنایا گیا‘دلچسپ امر یہ ہے کہ خود جنرل پرویز مشرف نے اس پورے عمل میں غیر ملکی ہاتھوں کو بھر پور رسائی دی۔2007ء میں خود Condoleezza Rice اور امریکی سفارت کار Richard Boucherکے علاوہ یو اے ای کے شاہی خاندان کی اعلیٰ شخصیات نے بھی اپنا عملی کردار ادا کیا یعنی کرپشن کے مقدمات کے باوجود بدعنوان سیاست دانوں کو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی دلوانے میں غیر ملکی طاقتوں کی دلچسپی حیران کن ہے دونوں سا بق حکمرانوں نے کس سطح کی کرپشن کی اور کس طرح قومی اداروں کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر استعمال کیا پوری تفصیل اب عام ہو چکی ہے بیرون ملک ان کے اثاثے اور جائیدادیں کھلے ثبوت ہیں کہ قومی خزانہ دونوں ہاتھوں میں لوٹا گیا۔عدالتوں میں من پسند وکلاء کو جج تعینات کیا جاتا رہا‘بیورو کریسی میں منظور نظر افسران کو ترقیاں دے کر بدعنوانیوں کے ثبوت غائب کروا دیے گئے۔ این او آرکے تحت کسی قومی ادارے نے یہ کھوج نہیں لگایا کہ آخر محترمہ بینظیر بھٹو کو کن ہاتھوں نے پس پردہ رہ کر قتل کروایا؟ اور اس قتل کا اصل فائدہ کس نے اٹھایا؟اس ضمن میں جن مشکوک افراد کا بعد میں قتل ہوا اس کے محرکات کیا تھے؟ عزیربلوچ اور رائو انوار کو کیوں ریلیف فراہم کیا گیا؟۔ این آر او اگر اب بھی دیا گیا تو پھر ’’بنی گالا‘‘جاتی امرا‘‘ اور ’’بلاول ہائوس‘‘ میں کیا فرق رہ جائے گا ۔ ا وزیر اعظم عمران خان کو سخت پالیسی اختیار کرنی ہو گی اور عوام کو اعتماد میں لینا ہو گا ۔ عمران خان اپنی حکومت کا آدھا سفر پورا کر چکے ہیں، معیشت کی حالت انتہائی حد تک بگڑ چکی ہے آنے والا بجٹ موجودہ حکومت کے لئے مزید مشکلات لے کر آ رہا ہے، لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی ابھی تک ایک خواب ہے۔ اس ضمن میں اب آنے والے دنوں میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے بغیر یہ دولت واپس نہیں لائی جا سکتی۔ بدعنوان شخصیات کی جائیدادیں اور اثاثے نیلام کر کے قومی خزانے میں دولت کی واپسی سے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ قدرے کم ہو سکتا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ بیمار اور بوسیدہ نظام میں بیمار سیاستدان عوام پر مسلط ہوتے ہیں‘آصف علی زرداری بیمار‘ میاں نواز شریف بیمار‘ میاں شہباز شریف بیمار‘ اسحق ڈار بیمار اور پھر ان کی بیماری بھی ایسی کہ جس کا علاج پاکستان میں نہیں‘ان کو پاکستان سے باہر لندن اور دوبئی جانا پڑتا ہے دراصل ان کی اصل بیماری کرپشن ہے ،قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ اب نظام میں جس بیماری نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں اس کا علاج کیا جائے‘اس بیماری کا علاج این آر اوکا خاتمہ اور سرجری ہے ۔اس ضمن میں حکومت کے علاوہ قومی میڈیا جن میں دانشور طبقہ اور قلم قبیلہ کے لوگ برابر کے شریک ہیں، اپنا بھر پور کردار ادا کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں ۔