جمعہ 29نومبر کے دِن عالمی سطح پر دوبڑی تقریبات،میرے لیے بہت اہمیت اختیارکرگئی تھیں۔پہلی تقریب چوتھی عالمی ماحولیاتی احتجاج پر مبنی تھی ،جبکہ دوسری تقریب کا تعلق اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ یوم یکجہتی فلسطین تھا۔(واضح رہے کہ فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کا عالمی دن ہر سال 29 نومبر کو اقوام متحدہ کے تحت منایا جاتا ہے۔ فلسطینی عوام کے ساتھ اتحاد و یکجہتی کا عالمی دن اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی 2 دسمبر 1977ء کی ایک قرارداد کے تحت تمام رکن ممالک اس تاریخ کو مناتے ہیں)یہ اَمر(عالمی ماحولیاتی احتجاج)اس بات کوعلامتی طور پر ظاہرکرتا ہے کہ ماحولیاتی انصاف براہِ راست فلسطین کی جدوجہد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔فلسطین کو آب وہوا میں انصاف کا مسئلہ درپیش ہے۔ مَیں فلسطین میں ماحولیاتی تنظیموں کے مابین رابطہ کار کے فرائض سرانجام دیتی ہوں۔مَیں روزانہ کی بنیا دپر اس بات کی گواہ ہوں کہ فلسطینیوں کے لیے آب وہوا کی تبدیلی محض فطری رجحان نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی عمل کا نتیجہ ہے۔اسرائیل کا قبضہ اور نسل پرستی کی عصبیت پر مبنی حکومت ، جو ہرفلسطینی باشندے کو اپنی سرزمین اور وسائل کو استعمال کے حق سے محروم کرتی ہے ، فلسطینیوں کو درپیش آب و ہوا کے بحران کو اور بڑھاتا ہے ، اور ہمارے لیے آب و ہوا سے متعلق واقعات کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ اس کی ایک انتہائی مثال غزہ کی پٹی قراردی جاسکتی ہے،جہاں دوملین فلسطینی باشندے اسرائیلی قبضے اور محاصرے کی بدولت کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔اقوام ِمتحدہ کے مطابق 2020ء میں غزہ کی پٹی سکونت کے لائق نہیں رہے گی،جبکہ بہت سوں کا خیال ہے کہ غزہ تو اب بھی سکونت کے لائق نہیں ہے۔غزہ میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ، نہ صرف آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بلکہ اسرائیل کی طرف سے آلودہ پانی کو صاف پانی میں تبدیل کرنے اورگندے پانی کی روک تھام کے لیے درکار مادے اور ایندھن کے داخلے پر پابندی کے سبب بھی بدتر ہوگئی ہے۔اس کے نتیجے میںآلودہ پانی غزہ کے ساحلی پانی میں شامل ہورہا ہے اور جو کہ ماحول اور انسانی صحت کو شدید نقصان پہنچارہا ہے ۔غزہ کا پچاسی فیصد پانی اب انسانی استعمال کے لیے نا مناسب ہے اور آلودہ پانی غزہ کی تمام بیماریوں میں سے 26 فیصد بیماریوںکاسبب بنتا ہے ، علاوہ ازیں یہ آلودہ پانی بچوں کی اموات کی بھی سب سے بڑی وجہ ٹھہرتا ہے۔یہاں ہم اس مسئلے کی افسوسناک مثالوں میں سے اُس پانچ برس کے فلسطینی بچے محمد السیس کی مثال پیش کرتے ہیں جو اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ گرمی سے بچائو کے لیے سمندری پانی میں نہانے گیا مگر سمندرکے آلودہ پانی میں نہانے سے زندگی کی بازی ہاربیٹھاتھا۔ اسرائیل، غزہ کی زمین اور زراعت کو تباہ کرچکا ہے۔اسرائیل کی فوج باڑ سے متصل فلسطینیوں کو غزہ کی قابل کاشت زمین کا 20 فیصد استعمال کرنے سے روکتی ہے او راسرائیلی فوج خطرناک جڑی بوٹیوں سے غزہ کے کھیتوں کو نشانہ بنا تی ہے۔فلطین کی غیر سرکاری تنظیموں کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق غزہ پر اسرائیل کی 2014 ء کی جنگ ، جس کے دوران اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر 21ہزارٹن دھماکا خیز مواد گرا یاتھا ،اس دھماکاخیز مواد کے نتیجے میں ممکنہ طور پر زمین کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچا ،جس نے زرعی پیداوار کو کم کردیا۔مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل منظم طورپر فلسطین کے پانی کو آلودہ اور زمین کی کاشت کی صلاحیت کو تباہ کرتا ہے۔مقبوضہ مغربی کنارے کی ساٹھ فیصدزمین پر اسرائیل کا قبضہ ہے،جہاں 6لاکھ 40ہزار اسرائیلی غیر قانونی بستیوں میں رہتے ہیں۔اسرائیلی آباد کار مغربی کنارے کے 2.9 ملین فلسطینی باشندوں سے چھ گنا زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں۔دوسری طرف اسرائیل 1967ء سے اب تک زیتون کے8لاکھ پیڑوںکو بھی زمین سے اکھاڑ چکا ہے۔فلسطین کے عوام کے وہ گروہ جن کی معاش زراعت سے وابستہ ہے ،وہ زمین پر قبضہ اور آب وہ ہوا کی تبدیلی کے ہاتھوں مشکل میں ہیں۔فلسطینی کسانوں کو وادی اُردن ،جس کا 30فیصد زرعی علاقہ مغربی کنارے میں واقع ہے ،میں گمبھیر نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔اُردن وادی کا گائوں الاوجا،ایک مثال ہے۔اس گائوں کی کچھ زمین پر اسرائیلی آبادکار قابض ہیں ۔الا وجا کا مرکزی موسم بہار ، جو کاشتکاری کے لیے پانی کا مستقل بہاؤ فراہم کرتا تھا ، اب ہر سال صرف چند ہفتوں سے چند مہینوں تک پانی مہیا کرتا ہے۔پانی کے اس مستقل بہائو کو روکنے کے لیے اسرائیل کی ایک آبی کمپنی نے اس بہائو کے خلاف کنواں کھودا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الاوجاکا موسم بہار خشک ہوکررہ گیا اور زرعی پیداوار میں کمی آتی چلی گئی اور جب الاوجا جیسے گائوں پانی کی قلت کے خلاف جدوجہد کررہے ہوتے ہیں یا پانی کی کمی پورا کرنے کے لیے کوئی مساعی کر رہے ہوتے ہیں تو آس پاس کے وہ گائوں جہاں اسرائیلی آباد کار رہائش پذیر ہیں ،وہاں پینے کا پانی وافر مقدار میں دستیاب ہوتاہے۔ہم اس شدید نوعیت کے فرق کو پانی کی عصبیت کہتے ہیں،یہ جو آب و ہوا کی تبدیلی کی عصبیت ہے ،یہ بھی اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی ہے۔ اسرائیل دنیا بھر میں ’’گرین‘‘کے نام سے اپناایک تاثر بنانے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن حقیقت ڈرامائی طور اس کے برعکس ہے ۔ اسرائیل غیر مستحکم زرعی اور پانی کے استعمال کے طریقوں پر انحصار کرتا ہے جن کا انحصار فلسطینیوں کی زمین اور پانی کے استحصال پر ہے۔ اضافی طور پر ، اسرائیل کی بجلی کی 97.7 فیصد پیداوا ر حیاتاتی ایندھن سے حاصل ہوتی ہے ، اور اسرائیل حیاتاتی ایندھن سے پیدا ہونے والی قدرتی گیس اور بجلی کو یورپ میں برآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔فلسطینی عوام کے ساتھ عالمی یکجہتی دن کے موقع پر ، فلسطینی ماحولیاتی تنظیموں نے اسرائیل کی حکومت اور اداروں اور کمپنیوں کے بائیکاٹ کے ذریعے ماحولیاتی عصبیت کے خاتمے کے لیے عالمی دباؤ پر زور دیا ہے ، جو ہمارے ماحول کی تباہ کاریوں اور ہمارے حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں۔اس بائیکاٹ میں اسرائیل کی آبی کمپنی کے بین الاقوامی منصوبوں کا بائیکاٹ کرنا بھی شامل ہے ، جو فلسطینیوں کو پانی تک رسائی سے محروم رکھنے اور اسرائیل کی غیر قانونی بستیوں کی فراہمی کے ذریعہ آبی عصبیت کی حمایت کرتے ہیں۔چونکہ عوام حیاتاتی ایندھن کے استعمال کے خاتمے اور ہر ایک کے واسطے یکساںآب و ہوا کے انصاف کے لیے دنیا بھر میں ریلی نکالتے ہیں ، ہر ریلی کے منتظمین کو چا ہیے کہ وہ فلسطینیوں کی آزادی ، انصاف اور مساوات کی حمایت میں اپنی حکمت عملی اور مطالبات میں ایسے بائیکاٹ کو شامل کریں۔ (بہ شکریہ الجزیرہ؛ترجمہ :احمد اعجاز)