ڈینور میں قیام کی ایک خوب صورت یاد وہاں کے تاریخی ویمن پریس کلب کا وزٹ تھا جہاں پاکستانی صحافیوں کے وفد کے اعزاز میں ایک پرتکلف کافی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ 12دسمبر کو جب ہم اس روز کی مختلف نشستیں اور انٹرایکٹو سیشن نمٹانے کے بعد ڈینور کے تاریخی ویمن پریس کلب پہنچے دن‘ سرمئی شام میں چھل رہا تھا۔ وہاں اتنے روشن اور محبت بھرے چہروں نے ہمارا استقبال کیا کہ دن بھر کی تھکن اور بوریت جیسے ہوا ہو گئی۔ سنہری ‘ گولڈن برائون‘ مہندی رنگ‘ سرمئی اور سفید ہر رنگ کے بالوں والی خواتین‘ خوبصورت لباس پہنے ہوئے‘ نک سک سے تیار۔ چہروں پر مہربان اور دوستانہ مسکراہٹ سجائے‘ ان گنت صحافی اور لکھاری خواتین‘ بار بار یو ویلکم‘ یو ویلکم کہتی ہوئی‘ ہمیں گلے لگاتی اور ہمارا استقبال کرتی تھیں کی جی خوشی اور محبت سے بھر گیا۔ ان میں زیادہ ادھیڑ عمر اور عمر رسیدہ لکھاری خواتین تھیں اور ان کے خیر مقدمی انداز میں محبت کی ایسی گرمائش تھی کہ ایک لمحے کو مجھے یوں لگا جیسے ہم اپنے کسی بچھڑے ہوئے خاندان سے آ ملے ہوں اور ہماری خلائیں‘ پھوپھیاں اور نانیاں دادیاں ہم پر واری صدقے جاتی ہوں۔ ہمارے ڈینور میں قیام کے یہ بہت ہی خوشگوار لمحات تھے اور اس خوشگواریت میں حیرت کی آمیزش اس وقت ہوئی جب میری ایک پاکستانی صحافی ساتھی مجھے کہنے لگیں ایک افریقن صحافی آپ کا پوچھ رہی ہیں کہ یہاں سعدیہ قریشی ہیں۔؟ میں ابھی یہ سن کر اسے جواب دینے والی تھی کہ امریکن اور پاکستانی صحافی خواتین کے ہجوم سے ایک بلند قامت گہری سانولی رنگت والی پروقار خاتون میرے قریب اور بولیں you sadia qureshi I am Donna Bryson, Ashraf Sharif,s friend اشرف شریف نے مجھے ڈونا کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ ڈینور میں رہتی ہیں لیکن مجھے اندازہ نہ تھا کہ حسن اتفاق ان سے یہاں ویمن پریس کلب میں ملاقات ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں ڈینور پہنچنے پر یہاں کی مصروفیات اور پروگرام سے متعلق جو تفصیلی معلوماتی کتابچہ دیا گیا تھا میں نے اسے بھی غور سے پڑھا تھا جس میں ریاست کولو روڈو کی جن چند نمایاں صحافی خواتین سے ملاقات ے نام دیے ہوئے تھے ان میں ڈونا برائسن کا نام بھی تھا۔ ڈونا افریقن امریکن ہیں اور لندن‘ قاہرہ ‘ نیو دہلی اور جوہانسبرگ میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی بیورو چیف کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل اور الجزیرہ میں ڈونا کے آرٹیکلز چھپتے رہے ہیں۔ ان دنوں وہ ڈینورائٹ نیوز پیپر میں ہائوسنگ اینڈ ہنگر۔ رپورٹر ہیں۔ ایک ایفرو امریکن صحافی کی حیثیت سے ڈونا اپنے مشاہدات اور تجربات کو دو کتابوں میں سمو چکی ہیں ایک کا نام ہے۔ Its a black-white thing دوسری کتاب کا نام ہےhome of the brave وویمن پریس کلب ڈینور میں ڈونا سمیت صحافیوں‘ لکھاریوں‘ ناول نگاروں اور شاعرات کے ایک خوب صورت ہجوم سے ملاقات ہوئی۔ ہجوم کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ وہاں اس شام ڈینور کے 120سالہ تاریخی پریس کلب کی چھتری تلے‘ اتنے خوب صورت چہرے اور اس سے بڑھ کر خوبصورت دماغ تھے کہ ان سے فرداً فرداً ملاقات اور بات چیت کے لئے محض ایک شام کافی نہ تھی۔ اس کے لئے تو کئی شامیں درکار تھیں۔لفظوں اور حرفوں سے جڑی ہوئی۔ کہانیوں‘ خبروں اور رپورٹوں سے جڑی ہوئی ‘ ہر خاتون لکھاری اور صحافی اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ ہر ایک کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا۔ ہر ایک کی ذات کے ساتھ زندگی میں جدوجہد کی کوئی کہانی جڑی ہوئی تھی۔ ان کے پاس بنانے کو بہت کچھ تھا کہ گھر اور دفتر‘ پروفیشن اور خاندان کے درمیان توازن اور مطابقت رکھنے کے سفر میں وہ اپنی ذات کو کہاں کہاں فراموش کرتی ہیں اور ہمارے اور ان امریکی خواتین صحافیوں کے درمیان بہت کچھ مختلف ہونے کے باوجود بہت کچھ سانجھا تھا۔ وقت اگرچہ کم تھا مگر پھر بھی اس شام ہم نے آپس کے تجربات شیئر کئے۔کافی‘ کوکیز‘ کیک‘ جوسز اور فروٹس کے ساتھ مخلصانہ تواضع کے بعد سوالات اور جوابات کا ایک سیشن ہوا ۔بہت سارے سوالات انہوں نے ہم سے کئے اور پاکستانی معاشرے میں کام کرتی صحافی خواتین کے مسائل اور ان کو میسر وسائل کو جاننے کی کوشش کی۔ ڈینور کے ویمن پریس کلب کی صدر ایک عمر رسیدہ صحافی خاتون مارشیا گولڈ سٹین تھیں۔ مجھے یاد نہیںآ سکا مگر مجھے ان کے مہربان چہرے پر پھیلی مسکراہٹ یاد ہے۔ وہ فرداً فرداً سب کے پاس جاتیں اور انہیں کافی اور کیک کی پیشکش کرتیں۔ڈینور ویمن پریس کلب 1898ء میں انیس خواتین کی کوششوں سے وجود میں آیا جس میں مینی جے رینلڈ کی خواتین کے ووٹ کے حوالے سے سیاسی جدوجہد بہت نمایاں تھی۔ اسی بنیاد پر انہیں ویمن پریس کلب کی پہلی صدر ہونے کا اعزاز ملا اور یہ خوبصورت عمارت جس میں ہم 12دسمبر کی شام ڈینور کی امریکی صحافیوں سے بات چیت کرتے اور کافی پیتے تھے۔ یہ 1924ء میں خریدی گئی تھی اور تب سے اب تک پریس کلب پہ لکھاری خواتین کا دوسرا گھر تصور کیا جاتا ہے۔ ایک خوب صورت شام اختتام پذیر ہو رہی تھی۔ فوٹو سیشن‘ سلفیوں اورتصاویر کے ساتھ ساتھ پاکستانی وفد نے امریکی صحافیوں کو پاکستان سے لاتے ہوئے تحائف بھی دیے ۔ شام گہری ہو رہی تھی۔ ڈینور کی شاہراہیں روشنیوں سے جگمگا رہی تھیں اور ہم خوبصورت یادیں سمیٹے اپنے ہوٹل کی طرف گامزن تھے۔ ڈینور میں یہ ہمارے قیام کی سب سے خوبصورت شام تھی۔