28مئی ہر سال آتی ہے۔ فخر و انسباط بھری یادوں کے جھونکے ہمیں چھوتے گزر جاتے ہیں۔1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہمیں جہاں یہ سکھا گیا کہ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے دفاع کی قوت رکھتی ہیں اور یہ بھی کہ عدم مساوات‘ بے انصافی اور وسائل کی غلط تقسیم کے سمندر میں اٹھنے والی غربت اور محرومی کی لہروں نے کسی نہ کسی ساحل سے ٹکرانا ہوتا ہے اور یہ بھی کہ قوموں کی زندگی میں من مانی حکمت عملی غلط فیصلوں کا نتیجہ تباہی بربادی اور مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ جس دن سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔ وہ رات بھر سو نہیں سکے انہی خیالوں میں گم سم‘ نم آنکھوں تلخ سوچوں وجود میں ناقابل بیان تکلیف اور گہرے دکھ اور احساس کو یاد کر کے ڈاکٹر صاحب آبدیدہ ہو گئے۔ یہ آج سے کم و بیش 36سال پہلے وطن کے اس نامور سائنسدان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ کہنے لگے۔ ہمیں اتنا طاقتور ضرور ہونا چاہیے کہ کوئی ہمیں میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرے۔ ڈاکٹر خان جتنی حلیم الطبع اور نفیس شخصیت کے مالک ہیں اتنے ہی دھیمے انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ ڈھاکہ کے میدان کی پسپائی ڈاکٹر صاحب کے ذہن اور دل میں کانٹا بن کر چبھتی رہی انہوں نے وقت کی نبض پہچاننے اور حالات کے تیور بھانپ لینے والے ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھ ڈالا جو اس وقت مملکت خداداد کے وزیر اعظم تھے۔ بھٹو جانتے تھے کہ خود کو محفوظ رکھنے کے لئے طاقت کا حصول ہی واحد ہتھیار ہے انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو پاکستان مدعو کیا۔گفتگو کا موضوع ایٹم بم کی تیاری ہی تھا۔ ڈاکٹر خان ہالینڈ سے پاکستان آ گئے اور اس پراجیکٹ پر کام شروع ہو گیا۔ ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب ڈاکٹر صاحب پاکستان میں بیورو کریسی کی سرخ فیتہ پالیسی کے سبب اتنے بددل ہوئے کہ وہ بھٹو صاحب کے دفتر پہنچ گئے اور ان سے واپس جانے کی اجازت چاہی بھٹو صاحب نے اس وقت کے سیکرٹری خزانہ غلام اسحق خان کو طلب کر کے واضح طور پر ہدایت کر دی کہ آج کے بعد ڈاکٹر صاحب کو کسی معاملے میں شکایت کا موقع نہ ملے، پھر اس سلسلے میں انہیں کبھی بھی حکومتی تعاون کے حوالے سے شکوہ نہ ہوا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب نے کئی بار انٹرویوز کرنے کا موقع ملا۔یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر صاحب قوم کو یہ عظیم تحفہ دینے کی تگ و دو میں مصروف تھے پھر جب مشاہد حسین سید کے ساتھ بھارتی ممتاز صحافی کلدیپ نائر نے ڈاکٹر عبدالقدیر سے ملاقات کی تو ڈاکٹر صاحب نے کلدیپ کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ پاکستان کا ایٹم بم تیار ہے۔ کلدیپ نے یہ خبر 10ملین میں ٹائمز آف انڈیا کو فروخت کی کہ پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا ہے۔ یہ خبر دنیا بھر کے میڈیا میں شہہ سرخیوں کے ساتھ نشر اور شائع ہوئی۔ اس موقع پر جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر خان سے کہا کہ آپ کے انکشاف نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے، ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا۔ جنرل صاحب میں نے دانستہ طور پر ایسا کیا۔ تاکہ بھارت کو پیغام چلا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کوئی مہم جوئی کرنے کی جسارت نہ کر سکے۔اس کے بعد جنرل ضیاء خود ایک ایسے مرحلے پر جب پاکستان اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے آ گئی تھیں،خطرہ منڈلا رہا تھا کہ کہیں یہ کشیدگی فل اسکیل جنگ میں نہ بدل جائے جنرل ضیاء پاک انڈیا کرکٹ میچ دیکھنے دہلی پہنچ گئی۔جہاں انہوں نے ایک مختصر ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو سرگوشی کے انداز میں بتایا کہ کسی بھی جارحیت کا ارتکاب کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیجیے کہ ہمارے پاس بھی وہ کھلونا موجود ہے جو آپ کے پاس ہے ۔یہ سن کر بھارتی وزیر اعظم کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو صاحب اس پروگرام کو شروع کرنے کے بنیادی کردار ہیں لیکن اس کے بعد جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحق خان سمیت تمام سربراہان نے کبھی بھی اس پروگرام کے حوالے سے کہیں بھی کمزوری اور کوتاہی نہیں دکھائی ۔ایٹم بم کی تیاری کے مختلف مراحل میں پاکستان کو بڑے چیلنج اور خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مرحلے پر امریکہ نے فرانس کو دھمکی دی کہ اس نے پاکستان کو سینٹری فیوج پلانٹ فراہم کرنے کی کوشش کی تو وہ ایسے پلانٹ کو لے جانے والے جہاز کو سمندر میں ڈبو دے گا۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے لاہور ایئر اپورٹ کے وی آئی پی لائونج میں سامنے بیٹھے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا میں مانتا ہوں آپ مجھ سے اچھی انگریزی بولتے ہیں لیکن آپ نے ایٹم بم بنانے کی ضد ترک نہ کی تو ہم آپ کو عبرت کی تصویر بنا دیں گے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی قیادت اور عوام ایٹم بم بنانے کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار تھے اور اس کا ثمر انہوں نے اس وقت دیکھا جب 28مئی 1998ء کو بے پناہ ترغیبات اور غیر معمولی دبائو کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پاکستان نے ایٹم بم بنا کر نہ صرف اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا لیا بلکہ دنیا خصوصاً بھارت کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے والا سوچ لے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب بھارت نے پاکستان کی سرحد پر فوج تعینات کر کے جنگ کا طبل بجا دیا تھا۔اس موقع پر جنرل مشرف نے بھارت کو یہ پیغام دیا کہ بھارت نے جارحیت کی تو پاکستان آخری حربے کے طور پر نہیں پہلا وار ہی ایٹم بم سے کرے گا اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ایٹم بم کے اصل معمار ڈاکٹر عبدالقدیر ہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب قوم کے ہیرو اور محسن ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ایک بار سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے جب وہ ولی عہد تھے، اپنے مہمان کے طوور پر مجھے ریاض بلایا تو میں نے ان سے عرض کی کہ آپ لاتعداد اسلامی ممالک کے سربراہوں کو روضہ مبارکؐ اور خانہ کعبہ میں اندر جانے کی خصوصی اجازت دیتے ہیں خدا کے واسطے یہ نہ کیا کریں آپ کو علم ہے کہ بعض حکمران بدکردار ہوتے ہیں، رسول اللہ ؐ کی روح کو بڑی تکلیف ہوتی ہو گی، انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن ہماری مجبوری ہے کیونکہ یہ لوگ دوست ممالک کے سربراہ ہوتے ہیں،یہ خود درخواست کرتے ہیں اس لئے انکار کرنا ہمارے لئے مشکل ہو جاتا ہے کہ ہم انکار کریں۔ میں نے ان سے کہا کہ ایک حکم کے ذریعے ایسا کر سکتے ہیں کہ کسی کو بھی اجازت نہیں ہو گی،یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے، میں سمجھ گیا کہ میری یہ بات ماننا شاید ان کے لئے ممکن نہیں۔ ٭٭٭٭٭