بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر دنیا بھر کے کشمیریوں نے یوم سیاہ منایا۔ مقبوضہ کشمیر کے نہتے اور امن پسند کشمیریوں کے ساتھ پوری دنیا میں امن کے حامیوں اور جمہوریت پسندوں نے بھی اس موقع کو ایک نحوست بھرے دن کے طور پر منایا۔ بھارت کا سیکولر معاشرہ‘ جمہوری اقدار پر استوار نظام اور کثیر الگروہی چہرہ ایک عرصہ تک دنیا کو فریب دیتا رہا کہ وہ مہذب اور امن پسند اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ کشمیر کے لوگوں پر ایک مبہم اور غیر قانونی الحاق مسلط کر کے بھارت نے بہتر سال سے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ بھارت میں آر ایس ایس کے نظریات کا فروغ اور بی جے پی کا طاقتور ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ بھارتی معاشرہ اب تک فرقہ وارانہ ‘ نسلی اور مذہبی عدم برداشت سے نجات حاصل نہیں کر سکا۔ بی جے پی نے انتخابات میں مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے انکار کیا اور اب آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرنے کے لئے جس طرح یکطرفہ اقدام کیا وہ کسی قانون پسند کے لئے قابل قبول نہیں۔ بھارتی حکومت کے اس جابرانہ اور ظالمانہ طرز عمل کے خلاف اہل کشمیر نے پندرہ اگست یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج کے طور پر پندرہ اگست کو قومی پرچم سرنگوں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی سفارت خانوں کے سامنے کشمیری باشندوں اور ان کے حق خود ارادیت کی حمایت کرنے والے افراد نے احتجاج کیا۔ خاص طور پر لندن میں کشمیری باشندوں کا مظاہرہ مہذب دنیا کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی ہر گلی اور گھر کے سامنے بندوق بردار کھڑے کر رکھے ہیں۔ جدید اور مہلک اسلحہ سے لیس بھارتی فوج گزشتہ 12دن سے کشمیر کا سانس بند کئے ہوئے ہے۔ دو روز قبل بھارت کے صحافیوں اور سماجی کارکنوں پر مشتمل ایک وفد مقبوضہ کشمیر میں پانچ دن گزارکر نئی دہلی آیا ہے۔ بدھ کے روز وفد نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر مرتب رپورٹ نئی دہلی پریس کلب میں پیش کرنا چاہی تو مودی انتظامیہ نے وفد کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ بھارت کے اپنے ذرائع ابلاغ تسلیم کرتے ہیں کہ ان پر کشمیر کے سلسلے میں خاصا دبائو ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے والے وفد کا کہنا ہے کہ کشمیر میں میڈیا سے وابستہ افراد سخت پابندیوں کی وجہ سے اپنا کام نہیں کر پا رہے۔ انہیں معلومات تک رسائی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ صرف نیو یارک ٹائمز‘ رائٹرز اور بی بی سی جیسے کچھ بین الاقوامی اداروں سے وابستہ صحافیوں کو چند علاقوں تک رسائی دی گئی ہے۔ وفد کا کہنا ہے کہ کشمیر کے مقامی اخبارات کے پاس اشاعت کے لئے کاغذ اور نیوز پرنٹ ختم ہو رہے ہیں جبکہ دہلی سے کاغذ منگوانے کی سہولت ان کو فراہم نہیں کی جا رہی۔ مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے والے وفد نے ایسی تصاویر جاری کی ہیں جن میں بہت سے زخمی نوجوان دکھائی دیتے ہیں۔ کئی کا چہرہ اور جسم پیلٹ گن سے شدید متاثر ہے۔ کشمیر کے اہم سیاستدانوں کے علاوہ سیاسی کارکنوں‘ شہری حقوق کے حامیوں‘ وکلا نمایاں کاروباری شخصیات اور بی جے پی کے اقدام پر تنقید کرنے والے ہر شخص کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔ وفد نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ گرفتار افراد کی تعداد‘ ان پر بنائے گئے مقدمات کی نوعیت اور انہیں کس جگہ قید رکھا گیا‘ اس بارے کوئی اطلاع نہیں دی جا رہی۔ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ عالمی برادری کشمیر کے معاملے میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادیں اس امر کی گواہی ہیں کہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک تنازع ہے جس کے تین فریق پاکستان‘ کشمیری عوام اور بھارت ہیں۔ بھارت برسہا برس سے کشمیر پر اپنا تسلط قانونی ثابت کرنے کے لئے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے مابین ہونے والے معاہدے کو عالمی برادری کے روبرو پیش کرتا رہا ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی پوتی نے حالیہ دنوں بھارتی اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت بھارت نے نہیں دی تھی بلکہ ان کے دادا نے خود بھارت کو کچھ رعایتیں دے کر کشمیر کے چند معاملات کی ذمہ داری تفویض کی تھی۔ مودی حکومت نے کشمیر کی اس حیثیت کا خاتمہ کر کے کشمیر کے ساتھ اپنے اس تعلق کا خاتمہ کر لیا ہے۔ بھارت تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا ہوا ہے جہاں اس کی ساکھ‘ حیثیت ‘نیک نامی اور امن کو صرف ایک بڑی منڈی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے فروخت کیا جا رہا ہے۔ کشمیر ایک ایسا تنازع ہے جسے فلسطین کی طرح ہضم نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطینیوں کے پاس پاکستان جیسا دوست نہیں ہے جس کی سرحد اسرائیل سے ملتی ہو۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اعلان کر چکی ہے کہ کشمیریوں کی حمایت کے لئے اسے کسی بھی حد تک جانا پڑے وہ تیار ہے۔ پاکستان میں یوم آزادی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے دن کے طور پر منایا گیا۔ بھارت 72برس سے قابض ہے مگر کشمیری اس کے ہر یوم آزادی کے موقع پر احتجاج کرتے ہیں‘ اس کی کھوکھلی جمہوریت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ جو بربریت ہو رہی ہے‘ اس کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ بھارت کی پابندیوں اور جبر کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں خوراک اور ضروری ادویات کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے مسائل بھیانک ہو رہے ہیں۔ زخمیوں کو ہسپتالوں میں علاج کی سہولت تک نہیں مل رہی۔ کشمیر کی طرف سے عالمی برادری کی بند آنکھیں کھولنے کے لئے شاید ایک یوم سیاہ کافی نہیں۔ گہری نیند سے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کے لئے کشمیریوں کو ہر دن یوم سیاہ کے طور پر منانا پڑے گا۔