دنیا کو انسانی حقوق کا درس دینے والے یورپ کا اصل چہرہ اِن دنوںبیلارُوس اور پولینڈ کی سرحد پر دیکھا جاسکتا ہے جہاں ہزاروں مہاجرین سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں لیکن انہیں پولینڈ میں داخل نہیں ہونے دیا جارہا۔ یورپ کے امیر ممالک چند ہزار مسلمان مہاجرین سے اتنے خوف زدہ اور متنفر ہیں کہ ان کواپنے ہاں آنے سے روکنے کیلیے جنگ تک کرنے کو تیار ہے۔ پولش فوجیں اور ٹینک بیلارُوس کی سرحد پر تعینات کردیے گئے ہیں۔ یورپی یونین پولینڈ کی پشت پر کھڑی ہے۔ مشرقی یورپ میں واقع بیلارُوس پچانوے لاکھ آبادی پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ مِنسک اسکا دارلحکومت ہے۔یورپ جانے کے خواہش مندزیادہ تر مہاجر ین خانہ جنگی کے شکار ممالک لبنان‘ متحدہ عرب امارات‘ عراق‘ترکی کے کرد علاقہ‘یمن اور افریقہ‘ افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ لوگ زیادہ تر خلیجی ممالک سے فضائی سفر کرکے بیلارُوس پہنچے ہیں۔گزشتہ ہفتہ تقریبا ًدو ہزار مہاجرین بیلا روس اور پولینڈ کی سرحد پر اکٹھے ہوچکے تھے تاکہ سرحد پار کرکے پولینڈ میں داخل ہوسکیں اور وہاں سے آگے یورپ کے دیگر ملکوںخاص طور سے جرمنی میں جاسکیں۔کچھ مہاجرین بیلاروس کی لیتھوینیا اور لیٹویا سے ملنے والی سرحد پر بھی موجود ہیں۔ منجمد کردینے والی سردی کے موسم میں بیلاروس اور پولینڈکے درمیان ’نومین لینڈ‘ پرمہاجرین کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں جہاں نہ انکے سر پہ چھت ہے نہ ضرورت کے مطابق خوراک اور پانی۔ ان میں حاملہ عورتیں اورکم سن بچے شامل ہیں۔ پناہ گزینوںکواپنے ملک میں آنے سے روکنے کیلئے پولینڈ نے سرحد پر تیز دھار والی باڑنصب کررکھی ہے۔ اسکے سترہ ہزار نیم فوجی اور فوجی دستے سرحد پر تعینات ہیں۔ پولش ہیلی کاپٹر سرحد پر پرواز کرتے رہتے ہیں جبکہ انہیں منتشر کرنے کیلئے بکتر بند گاڑیاں اور پانی پھینکنے والے گاڑیاں گشت کرتی رہتی ہیں۔پولینڈ کا مہاجرین کے بارے میں روّیہ خاصا جارحانہ ہے ۔ پولش فورسزسرحد عبور کرنیوالے افراد پر تشدد کرکے انہیں دوبارہ بیلارُوس میںدھکیل دیتی ہیں۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے علمبردار یورپی یونین کے رکن ملک پولینڈ نے صحافیوں‘ انسانی حقوق کے کارکنوں ‘ امدادی تنظیموں اور یورپی یونین کے حکام کو سرحد پرجانے سے روک دیا ہے۔ یورپی یونین کے دباؤ پر عراق اور ترکی نے عراق‘ شام اور یمن کے شہریوں کو بیلاروس جانیوالی پروازوں پر سفر کرنے سے روک دیا ہے۔ بیلارُوس ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین میں شامل نہیں بلکہ اپنے ہمسایہ میں واقع رُوس کا قریبی اتحادی ہے۔اگلے روز جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکل نے رُوسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ایک دن میں دو مرتبہ ٹیلی فون پر بات کی جس میں شکایت کی کہ بیلا رُوس یورپی یونین کے خلاف مخلوط جنگ (ہائبرڈ وار) لڑ رہا ہے اور اس جنگ میں نہتے لوگوںیعنی مہاجرین کو استعمال کررہا ہے۔ یورپی یونین الزام لگارہی ہے کہ مِنسک نے جان بوجھ کر مہاجرین کا بحران پیدا کیا ہے ۔ اس نے ان لوگوں کو اپنے ہاں آنے کی حوصلہ افزائی کی اور غیر قانونی طور پر آنے والوں کو سیاسی پناہ دی۔ بعد میں یہ لوگ ہمسایہ ملک پولینڈ میں جانے کیلیے اس کی سرحد پر واقع جنگل میں جمع ہوتے گئے ۔یورپی یونین کا موقف ہے کہ بیلارُوس کے صدرالیگزینڈر لُوکاشانکو معاشی پابندیوں کا بدلہ لینے کے لیے مہاجرین کارڈ استعمال کررہے ہیں۔یورپی یونین نے لُوکاشانکو کی حکومت پر الیکشن میں دھاندلی کروانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزمات لگا کرمعاشی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔مہاجرین کے معاملہ پر اب یورپی یونین بیلارُوس پر مزید پابندیاں عائد کرنا چاہتی ہے۔ اسکی پروازوں کو یورپ کی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ یورپی یونین بیلارُوس کے ستائیس بڑے عہدیداروں کے اثاثے منجمد کرے گی ۔ انکے یورپ میں سفر کو ممنوع کردیا جائے گا۔ردّعمل میں بیلارُوس نے دھمکی دی ہے کہ وہ گیس کی اس پائپ لائن کو بند کردے گا جس کے ذریعے رُوس کی گیس اسکی سرزمین سے گزر کر یورپی ممالک کوفراہم کی جاتی ہے۔ بیلارُوس کے مشرق میں واقع ممالک بشمول لیٹویا‘ لیتھوینیا‘ اسٹونیا وغیرہ نے ایک مشترکہ بیان میں الزام لگایا ہے کہ بیلارُوس مخلوط جنگ کو تیز کرکے عمداً یورپی یونین کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کررہا ہے ۔ان تین ممالک کا کہنا ہے کہ اس عمل سے اشتعال پیدا ہوگا اور معاملہ اتنا بڑھ سکتا ہے کہ فوجی تصادم ہوجائے۔پولینڈ نے بیلارُوس کی سرحد کے ساتھ فوج لگا دی ہے۔ جنوب میںواقع یورپی یونین کے دوست ملک یوکرائن نے فوجی مشقیں شروع کردی ہیں اورکسی جنگ کے خدشہ کے پیش ِنظر سرحد پر ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوجی تعینات کردیے ہیں۔دوسری طرف‘ مِنسک نے کہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کیلیے خود بھی اقدامات کرے گا اور اپنے تزویراتی اتحادی ماسکو سے بھی مدد لے گا۔ رُوس ڈٹ کر بیلا روس کی حمایت میں کھڑاہے۔ اس نے اپنے اتحادی کی حفاظت کیلیے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو تزویراتی جنگی طیارے اور اپنے پیرا ٹروپر فوجی بیلاروس بھیج دیے ہیں۔ رُوس نے کہا ہے کہ یورپ مہاجرین کے معاملہ پر اپنی انسانیت پر مبنی اقدار کی نفی کررہا ہے اور بیلارُوس کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے ۔ماسکو کا کہنا ہے کہ مِنسک پر معاشی پابندیاں ناقابل قبول ہیں۔ چھ برس پہلے جب شام کی خانہ جنگی سے متاثرہ افراد نے یورپ جانے کی کوشش کی تھی اسوقت بھی یورپ نے اپنے دروازے اُن پر سختی سے بند کرلیے تھے۔ صرف جرمنی نے انکو ایک خاص تعداد میںقبول کیا تھا۔ زیادہ تر شامی مہاجرین ترکی میں پناہ گزین ہوئے تھے۔حالانکہ مہاجرین کے حقوق پر بین الاقوامی معاہدے موجود ہیں۔ بیلارُوس سے آنیوالے مہاجرین کے معاملہ پر یورپی یونین نے جو سخت موقف اختیار کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یورپی ممالک کے نزدیک مسلمانوں کے خلاف تعصّب اور سلامتی کے خدشات انسانی حقوق اور عالمی معاہدوں سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ جب یورپ کے اپنے ٹھوس مفادات کا معاملہ ہوتا ہے تو اسکی انسان دوستی اور سیکولرازم فوت ہوجاتے ہیں ۔ انکی جگہ نسلی تعصب اور اسلام دشمنی غالب آجاتے ہیں۔