جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے ابتدائی برسوں میں کسی امریکی اخبارنے اپنی رپورٹ میںان کے ایک ایڈوائزر کے حوالے سے لکھا ’’ جب جنرل مشرف اخبارنویسوں سے گفتگو کرنے کے لئے منہ کھولتا ہے، ہمیں شدید پریشانی لاحق ہوجاتی ہے کہ ابھی کوئی غلط بات کہی اور پھر اس کی تردید ، وضاحت پر گھنٹوں ضائع ہوں گے۔‘‘ یہ بات بالکل درست تھی ، جنرل پرویز مشرف متنازع بیانات دینے کے ماہر تھے۔ ایسے درجنوں بیانات ان کے ریکارڈ پر ہیں، جن کا آج تک کوئی دفاع نہیں کیا جا سکا۔ نواب اکبر بگٹی کے حوالے سے یہ کہنا کہ اب ستر کا عشرہ نہیں، یہ لوگ وہاں سے ہٹ ہو ں گے ، جہاں سے انہیں پتہ بھی نہیں چل سکے گا۔ یہ جملہ بلوچستان پر بھاری پڑا، ہزاروں اموات اس ایک فقرے اور مائنڈ سیٹ کے نتیجے میں ہوئیں، صوبے بھر میں برسوں تک آگ بھڑکتی رہی، آج تک اس کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر شازیہ کیس کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہہ ڈالا کہ ہمارے ہاں بعض خواتین کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے کام (یعنی ریپ)خود کرالیتی ہیں۔ یہ نہایت افسوسناک اور باعث شرم فقرہ تھا، فوری طور پر اس کی وضاحت کی گئی اور پرویز مشرف نے خود بیان دیا کہ میں نے یہ بات نہیں کہی تھی، امریکی اخبار نے مروڑ تروڑ کر چھاپی ہے وغیرہ وغیرہ۔ واشنگٹن پوسٹ کی انتظامیہ اس پر بڑی برہم ہوئی، امریکہ کے اس موقر اخبار نے پرویز مشرف کے خلاف نہایت سخت اداریہ لکھا اور اس انٹرویو کی ریکارڈنگ اپنی ویب سائٹ پر ڈالی دی ۔ عمران خان جنرل پرویز مشرف نہیں،وہ ایک مقبول سیاستدان ہیں،جس کی اپنی شخصیت،اپنی خوبیاں، خامیاں ہیں۔ ان کاجنرل مشرف کے ساتھ موازنہ درست نہیں، تاہم متنازع بیانات دینے والی عادت ان میں بھی موجود ہے ۔ عمران خان اکثر بلا سوچے سمجھے بیان داغ دیتے ہیں،جس پر ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے، پھر اکثرانہیں تردیدی یا وضاحتی بیان جاری کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کسی بیان، انٹرویو یا اخبارنویسوں سے ملاقات وغیرہ سے پہلے مناسب تیار ی کر کے نہیں بیٹھتے۔ ایک عجب انداز کی خود اعتمادی نے انہیں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ایوان اقتدار کے دائیں بائیں ہر قسم کے ماہرین دستیاب ہوتے ہیں۔ آسمان کو تھگلی لگانے والے میڈیامینیجر،ہر قسم کے چلتر سیاسی مشیر،حکمرانوں کو ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولناسکھانے والے وزارت اطلاعات کے ماہرین۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے اکثرلیڈر خود کو دیوتا سمجھتے ہیں، جنہیںمشاورت کی ضرورت نہیں۔انہیں مشورہ دینے والے نہیں بلکہ اپنے ہر اقدام کی تعریف وتوصیف کرنے والے خوشامدی پسند ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اگلے روز اخبارنویسوںاور کالم نگاروں کے ایک وفدسے ملاقات کی ،وہاں پر کسی نے یوٹرن کا سوال داغ دیا۔(ویسے اخبارنویسوں کو مدعوکرنے کے لئے جوبھونڈا طریقہ اپنایا گیا، وہ لکھ دوں تو پڑھنے والے دنگ رہ جائیں گے، اسی وجہ سے کئی سینئر کالم نگار اور اخبارنویس نہیں گئے۔)اس ملاقات کے لئے عمران خان کو پہلے سے ہوم ورک کررکھنا چاہیے تھا۔ یوٹرن کا طعنہ انہیں اکثر ملتا ہے، اپوزیشن انہیں طنزیہ یو ٹرن خان کہتی ہے۔اسکی وضاحت ضروری تھی۔تیاری کے بغیر ٹاک شویا سوال جواب کی کسی محفل میں جانااکثر تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ عمران خان الیکشن سے پہلے ہی یہ بھگت چکے ہیں، جب وہ ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے بی بی سی ہارڈ ٹاک میں زینب بداوی کے تیز دھار سوالات کے آگے نہ ٹھیر پائے۔سابق امریکی صدر نکسن نے اپنی کتاب میں لکھا تھاکہ جب کبھی قوم سے خطاب کرنا ہوتا یا پھر پریس کانفرنس کی نوبت آتی تو میںچند دن پہلے سے تیاری شروع کر دیتا۔ گھنٹوں خود نوٹس بناتا ، پھر مشیروں سے ڈسکشن کے بعد اپنا بیانیہ تیار کرتا، سپیج رائٹر کے ساتھ دو تین سیشن کرتا، جس میں خوبصورت تیکھے جملے (ون لائنر)تیار کئے جاتے۔ایسے فقرے جو میرا نقطہ نظر بیان کرنے کے ساتھ مختلف اعتراضات کا بھرپور مدلل جواب بھی ہوں۔اپنے خان صاحب البتہ دوسرے تمام عالمی ومقامی لیڈروں سے مختلف ہیں۔ وہ چارمنگ دیوتا ہیں، فہم وفراست کی ان پر بارش ہوتی ہے اور جب وہ زبان کھولتے ہیں تو فصاحت وبلاغت کے چشمے بہنے لگتے ہیں۔انہوں نے جوش میں آ کر نہ صرف یوٹرن کا طعنہ قبول کیا، اس کا دفاع کیا بلکہ اس کے فضائل بیان فرماتے رہے۔ یہ سمجھے بغیر کہ یوٹرن ایک منفی اصطلاح ہے، پولیٹیکل سائنس میں اسے ہمیشہ بطور طنز ہی برتا جاتا ہے۔ لفظوں کا ایک خاص تاثر اور ہالہ ہوتا ہے، بعض سے مثبت توانائی پھوٹتی ہے تو کچھ الفاظ منفی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ذہانت ایک مثبت لفظ ہے،عقلمند، دانا، دانش مند سبہی ایک دوسرے سے تھوڑی مختلف کیٹیگری میں مثبت الفاظ ہیں۔ چالاکی کا لفظ منفی سمجھا جاتا ہے۔مکار، عیار ، شاطرتمام منفی الفاظ ہیں۔اگرچہ ہم کبھی کبھار عام سے انداز میں بھی کسی کو چالاک کہہ دیتے ہیںکہ تم بڑے چالاک ہوگئے ہو۔ اس ’’اعزاز‘‘ کوپھر بھی فخریہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔ ایک چالاک شخص کبھی خود کو چالاک کہلانا پسند نہیں کرے گا، وہ اپنے آپ کو سمجھدار، ذہین کہے گا۔ بالکل اسی طرح یوٹرن ایک منفی اصطلاح ہے۔ سیاست میں یوٹرن لینے سے مراد یہی ہے کہ فلاں شخص نے قلابازی کھاتے ہوئے اپنا موقف بدل لیا ہے۔ اب اس قلابازی کھانے کی بات کو دیکھ لیں، کوئی بھی اپنے بارے میں یہ بات پسند نہیں کرے گا۔ کہا جائے کہ مولانا فضل الرحمن سیاسی قلابازیاں کھانے میں ماہر ہیں، چاہے یہ بات درست ہی کیوں نہ ہو، مولانا کے حامی اور عقیدت مند اس پر خفا ہوجائیں گے۔ وہ ہمیشہ تردید کرتے ہوئے مولانا کی اصولی سیاست کے گیت گائیں گے ۔ایساصرف عمران خان ہی کر سکتے ہیں کہ یوٹرن کا طعنہ قبول فرمائیں اور پھر اس کی تعریف وتوصیف بھی کریں بلکہ دوسروں کو اس کی ترغیب دیں، عالمی تاریخ سے مثالیں دیں کہ فلاں لیڈر نے یوٹرن نہیں لیا تو برباد ہوگیا۔ اب یہاں ایک اور دلچسپ بات یہ کہ عمران خان کو یہ بھی علم نہیں، کس عالمی لیڈر کی مثال دینا ہے، کس کی نہیں۔ ہٹلر ایک منفی حوالہ ہے۔ہٹلر کی نسل پرستی تو خیر ہے ہی ، اس کی خودپسندی، ضد ، بے لچک رویے کے حوالے سے کسی کو شک وشبہ نہیں۔ لاکھوں، کروڑوں لوگوں کی جانیں اس کی وجہ سے گئیں۔ ویسے تو نیپولین بھی کون سا ایسا مثبت حوالہ ہے؟ایک خود پسند، ظالم،جرنیل جس نے بعض فتوحات تو حاصل کیں، مگرکوئی ایسا مثبت کام اس سے وابستہ نہیں کہ لوگوں کو اس سے ہمدردی ہوکہ بے چارہ اگر یوٹرن لے لیتا تو بچ جاتا۔ ہرکوئی سوچتا ہے خس کم جہاں پاک۔ عمران خان کو سمجھانا چاہیے تھا کہ سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا یوٹرن نہیں کہلاتا۔ ہر سمجھدار لیڈر اپنی پالیسیوں پر غور کرتا رہتا ہے، جب بدلتے حالات میں مناسب لگے تو رائے اور پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جاتا ہے۔ سیاست نام ہی لچک اور مفروضوں کا ہے، اس میں کبھی ایک قدم آگے بڑھانا تو کبھی دو قدم پیچھے ہٹانا پڑتا ہے۔ اگر ایسا کرتے ہوئے بنیادی اصولوں پر کمپرومائز نہ کیا جائے تو پھر لچکدار پالیسی اپنانا کوئی برائی یا یو ٹرن نہیں بلکہ یہ ایک خوبی ہے۔ مزے کی بات ہے کہ عمران خان نے اپنے بیس بائیس سالہ سیاسی کیرئر میں دو تین بنیادی حوالوں سے کبھی کمپرومائز نہیں کیا، یوٹرن نہیں لیا۔ وہ سیاست میں احتساب اور کرپشن کے خلاف ایجنڈا لے کر وارد ہوئے تھے۔ دو عشروں میں مختلف ناکامیوں کے باوجود عمران خان نے اپنے اس بنیادی ایجنڈے پر کمپرومائز نہیں کیا۔ وہ شروع سے آج تک لوٹی دولت واپس لانے، کرپٹ لوگوں کے احتساب اور سسٹم میں ریفارمز لانے کے ایجنڈے پر قائم ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی کے ساتھ مفاہمت کرنا ہر لحاظ سے تحریک انصاف کے حق میں تھا۔ ہر تجزیہ کار یہی مشورہ دے رہا تھا۔ عمران خان نے اس پر سٹینڈ لیا اور مسلسل پیپلزپارٹی دور کی کرپشن کو ہدف تنقید بنائے رکھا۔ عمران خان نے اگر تیاری کی ہوتی تو وہ اس نکتہ کو واضح کر سکتے تھے کہ یوٹرن تو شہباز شریف کا تھا، جب اس نے پچھلے الیکشن سے پہلے زرداری صاحب کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی اور پھر پانچ سال انہی کے ساتھ مفاہمت کر کے گزار دئیے ۔ تحریک انصاف نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنے بنیادی ایجنڈے پر ابھی تک یوٹرن نہیں لیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو مبالغہ آمیز پرکشش سیاسی نعرے وہ لگاتے رہے، اقتدار میں آ کر انہیں اندازہ ہوگیا کہ باتیں کرنا الگ مگر زمینی حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ یوٹرن نہیں بلکہ حقیقت پسندی ہے۔ تحریک انصاف کے پاس ایسا بیانیہ موجود ہے، جس نے انہیں ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ دلوائے، اس بیانیہ کو مگر کس طرح سلیقے سے آگے چلانا یاSell کرناہے۔یہ انہیں ابھی سیکھنا ہوگا۔ سیکھنے کا یہ عمل خوشامدیوں کے بجائے دانائوں کی صحبت، وسیع مشاورت اور درست مشوروں کی قبولیت کا تقاضہ کرتا ہے جس کا فی الحال فقدان ہے۔