دوسری جنگِ عظیم کے بعدعالمی سیاست میںتاجِ برطانیہ کا کردار سمٹنا شروع ہو اتو ریاست ہائے امریکہ کو مغربی دنیا کی قیاد ت حاصل ہو گئی۔ سرد جنگ کے اعصاب شکن دَور کا آغاز ہوا ۔ کئی سال بعد افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلاء اورسوویت یونین کی تحلیل کے بعد آنجہانی کمیونسٹ یونین کی جانشینی روس کے ہاتھ میں آئی۔سوویت تسلط سے نجات پانے والی وسط ایشیائی ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔چنانچہ ان افلاس کی ماری ریاستوں میں آمریت کا راج ہو یا آئے روز روسی مداخلت جاری رہے ، مغرب کو اس پرکبھی اعتراض نہیںرہا۔ وسائل سے مالا مال یورپی سرحدوں پر واقع سفید چمڑی والی اقوام کا معاملہ تاہم بالکل مختلف رہا ہے۔سرد جنگ کے خاتمے پر ناصرف یہ کہ ان ریاستوں میں مغربی طرز کی جمہوریت اور آزادیوں کے فروغ کے لئے بھاری فنڈز مختص کئے گئے بلکہ سوویت یونین کے تحلیل ہو جانے کے باوجود مغربی یورپ کواشتراکی خطرے کے پیشِ نظر قائم کردہ عسکری اتحاد ’ نیٹو‘ کو بھی جوں کا توں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ روس کی جانب سے یورپ کی سرحد پر واقع سابقہ سوویت ریاستوں پر اثر انداز ہونے کی کسی بھی کوشش کے مقابلے میں جمہوریت اورانسانی حقوق کا ’امرت دھارا‘ مغربی دخل اندازی کے جواز کے طور پر بروئے کارلایا جاتا۔ گزشتہ جمعرات کی صبح ،روس کی جانب سے یوکرین کے سرحدی علاقوں میں فوجی دستے اتارنے اور یوکرینی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کی کارروائیوں نے سرد جنگ کے دنوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر سفارت کاری کو بروئے کار لا کر علاقے میں تنائو کو قابو میں لانے کی کوشش نہ کی گئی تو مغرب کہ جس نے سات عشروں پہلے اپنی سرزمین کو جنگوں سے پاک رکھتے ہوئے عسکری خون ریزی کو تیسری دنیا کے ملکوں میں محدود رکھنے کی پالیسی اختیار کی تھی،جلد یا بدیر ایک بار پھر خود کو آگ اور خون کے کھیل میں گھرا ہوا پائے گا۔ روس کی جانب سے حالیہ فوجی کارروائی کے فوراََ بعد تنازعے کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کئے جا رہے ہیں۔دنیا کی اہم سٹاک مارکیٹوں میں حصص کی قیمتیں گر گئی ہیں۔ سونا ایک دم مہنگا ہو گیا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں کئی سالوں کے بعد چند گھنٹوںکے اندر سو کے ہندسے کو پار کر گئیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی گوورننس بالخصوص پنجاب کے معاملات پر اعتراضات میں وزن اپنی جگہ موجود ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زیادہ تر معاشی چیلنجزان کی حکومت کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ جہاںکچھ مسائل ان کو ورثے میں ملے تو وہیںعالمی وباء جیسے محرکات بھی کارفرما رہے ہیں۔اب ایک اور عالمی بحران جو سامنے کھڑا ہے تو سب جانتے ہیں کہ امریکی ڈالر کی قدراورعالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں مزید بڑھنے سے ہمارے امپورٹ بل میںہوش رُبا اضافہ ہوگا کہ جس کا براہِ راست دبائو کرنٹ اکائونٹ خسارے اور ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر آئے گا۔ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں معیشت کا انحصار غیرمعمولی طور پر درآمدات پر ہوتا ہے، یوکرین پر روسی حملے کے بعدہماری معاشی مشکلات مزید بڑھیں گی۔ دوسری طرف وزیرِ اعظم کے روس کے دورے کی’ ٹائمنگ‘ کو جواز بنا کرسال 2003 ء سے ہمارے ہاں خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی پر معمورطاقتور مغربی لابی کی طرف سے روسی حملے سے پہلے ہی اُن پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ہم جانتے ہیں مغربی طاقتوں کے ایماء پر ہی کچھ سیاسی رہنما، مخصوص میڈیا ہائوسز اور مغربی دارلحکومتوں میں مورچہ بند عناصر، پاکستان میں جمہوریت ،سویلین حکمرانی، انسانی حقوق اور شخصی آزادیوںکے نام پر پاکستان کے ریاستی اداروںکے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس مہم جوئی کے محرکات خطے میں مغربی مفادات سے جڑے ہیں۔عمران خان کو سلامتی کے اداروں کا مہرہ قرار دے کر تضحیک آمیز القاب سے نوازا جاتا رہا ہے۔ بھارت میں جس کی باز گشت سنی جاتی ہے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر صدر بائیڈن کی طرف سے عمران خان کو نظر انداز کرتے ہوئے دبائو بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان مغربی ممالک یا خطے میںان کے لے پالکوں کا دبائو قبول کرنے کو تیار نہیں۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تازہ عالمی صورتحال کے نتیجے میں آنے والی معاشی ابتری اورعالمی کساد بازاری مشکلات میں گھری حکومت کے لئے نیک شگون نہیں۔مہنگائی کاناقابلِ برداشت طوفان اٹھے گا، عوام بلبلا اٹھیں گے تو اپوزیشن کے اعتماد میںبھی اضافہ ہو گا۔ مغرب زدہ لبرلز کا ترجمان انگریزی اخبار متحدہ اپوزیشن کی حالیہ سرگرمیوں پر پرجوش ہے۔ اخبار میں چھپنے والی ایک طویل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن رہنما ئوں کے درمیان وزیرِ اعظم عمران خان کو عہدے سے کسی بھی صورت ہٹائے جانے پراتفاق ہو چکا ہے۔ رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ اس مقصدمیں کامیابی کی صورت میں ن لیگ جہاں فوری انتخابات چاہتی ہے تو وہیں جناب آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں جانے سے پہلے نئی حکومت ملک میں گڈ گورننس قائم کر کے معیشت بحال کرے اور مہنگائی پر قابو پائے۔انگریزی اخبار کی بظاہر اس سنجیدہ رپورٹ میں ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ گڈ گوورننس قائم کرنے کے بعد تیزی سے بدلتے عالمی حالات کے پیشِ نظرجناب زرداری صاحب مہنگائی پرکس طرح قابو پائیں گے اور یہ کہ اِس جنّاتی عمل کی تکمیل کے لئے انہیں کتنا عرصہ درکار ہوگا۔ اور یہ کہ اس گراں قدر قومی خدمت کی انجام دہی کے لئے وزیراعظم وہ خود ہوں گے یا ان کا کوئی نامزد کردہ شخص ان کی جماعت کے پہلے ادوار کی طرح ملک کو مشکلات سے نکالے گا۔ مختار مسعود نے ’لوحِ ایّام‘ میں برادر اسلامی ملک میںانقلاب کی سات بنیادی وجوہات لکھی ہیں،’’اول،شہنشاہیت۔دوئم،دولت کی غیر منصفانہ تقسیم۔سوم، یورپ اور امریکہ سے فارغ التحصیل لبرل طالبعلم۔ چہارم، لبرل مقامی دانشور جن میں استاد، ادیب، شاعر اور صحافی شامل ہیں۔ پنجم، روز گار کی تلاش میں شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے اور مایوس ہونے والے دیہاتی ۔ششم، مذہبی رہبر و رہنماء ۔ ہفتم،بائیں بازو سے وابستہ عناصر‘‘۔لکھتے ہیں،’’ متضاد مقاصد رکھنے والے عناصر حکومت کی مخالفت میں متحد ہو جاتے ہیں۔ کل تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قُم کی سیاہ پگڑیاں(مذہبی رہنمائ)، ماسکو کی سمور کی ٹوپیاں (بایاں بازو) اور امریکہ کی نیلی بد رنگ جینز (مغرب زدہ لبرلز)، تہرے اتحادکی علامت بن جائیں گے۔ایسے کسی بھی اتحاد کے بارے میں ایک بات یقینی ہے، ناکام ہوئے تو اتحاد ختم اور ایک دوسرے پر الزام تراشی۔ کامیاب ہوئے تو ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لئے فساد۔ دونوں کا حاصل خانہ خرابیــ‘‘۔ دیکھنا یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے مغربی دبائو ،عالمی کسادبازاری اور آنے والے دنوں میںمتوقع مہنگائی کے طوفان کے سامنے بے بس حکومت کومولانا، زرداری اور شریفوں کا تہرا اتحاد گرانے میں کامیاب ہو تا ہے یا نہیں۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ ہر دو صورت میں حاصل حصول کیا ہوتا ہے۔ مزید خانہ خرابی؟