کاروبارسیاست نام ہے حکمت اور مسلسل تغیر کا ۔ جمود اور ٹھہراؤ کا یہاں کو ئی گزر نہیں۔ سیاسی فیصلے مخصوص حالات اور پس منظر میں کیے جاتے ہیں۔ منظر بدلتاہے تو پرانے فیصلے کوڑا دان کی نذر کردیے جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا یوٹرن کو کامیاب سیاسی زندگی کی کنجی قراردینا غلط نہیں۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتاہے جہاں لوگ سیاسی جدوجہد کے نصب العین یعنی حتمی منزل اور اس تک پہنچنے کے راستے یعنی حکمت عملی کے درمیان امتیاز کرنا بھول جاتے ہیں۔ نصب العین نہیں بدلنا چاہیے۔ تدبیر مسلسل بدلتی رہتی ہے اور اسے بدلتے رہنا چاہیے۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی، کرپشن سے پاک نظام حکومت اور معاشرے کا قیام، شہریوں کو مساوی معاشی اور سیاسی مواقعوں کی فراہمی اور عدل و انصاف کا بول بالاوہ پرکشش نعرے تھے جنہوں نے وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کو عوامی مقبولیت عطا کی۔ ملک کی مقبول جماعتوں بالخصوص نون لیگ اور پیپلزپارٹی سے عشروں پر محیط سیاسی رفاقت ترک کرکے لوگ عمران خان کے ہمرکاب ہوئے۔ ماضی کو خیر آباد کہا اور تبدیلی کے نعرے کو حرزجاں بنایا۔تحریک انصاف کو نیا خون ملا تو وہ ایک طاقتور متبادل بن کر ابھری۔ نیلسن منڈیلاکو عصری سیاست کا پیغمبر تصورکیاجاتاہے۔ ان کی زندگی میں درجنوں یوٹرن نظر آتے ہیں۔ سفید فام اقلیت جس نے اکثریت کو غلام بنایااور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ نیلس منڈیلا نے انہیں اقتدار میں شراکت دار بنالیا۔کیا یہ یوٹرن نہیں تھا۔ منڈیلا کے ساتھی شکایت کرتے کہ مصائب ہم نے جھیلے ۔سیاسی جدوجہد ہم نے کی لیکن آج منڈیلا کے قریبی لوگوں میں سابق حکمران شامل ہیں۔ ٹائم میگزین نے منڈیلا کے ساتھ ایک طویل انٹرویو کیا جس میں منڈیلا نے اپنی کامیابی اور سیاست کے دس گر بتائے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کامیاب سیاستدان دوستوں کو قریب اور دشمنوں کو قریب تر رکھتاہے۔ مہاتما گاندھی کی سیاست کا مطالعہ بھی بہت دلچسپ اور حیران کن ہے۔ 1915ء میں جنوبی افریقہ سے ہندوستان لوٹے تو وہ ہندوستان کی مشہور اور معتبر شخصیت کے طور پر نہیں جانے جاتے تھے ۔ محض چھ برس کی سیاسی ریاضت سے انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت کا منصب سنبھال لیا۔آزادی ہند تک وہ کانگریس کے دیوتارہے۔ قائداعظم محمد علی جناح جنہیں ہندومسلم اتحاد کا سفیر کہاجاتاتھا کو انہوں نے اس حدتک دیوار کے ساتھ لگایا کہ وہ متحدہ قومیت کے تصور ہی سے تائب ہوگئے۔ گاندھی کہاکرتے تھے: حقیقت وہی ہوتی ہے جو لمحہ موجود میں ہوتی ہے۔ روف کلاسرہ نے حال ہی میں ذوالفقار علی بھٹو کے معروف اطالوی صحافیہ اورینا فلاسی کے ساتھ ایک انٹرویو کا حوالا دیا جو پڑھنے کے لائق ہے:بھٹو سے اوریانہ فلاسی نے کہا : اندرا گاندھی کہتی ہیں کہ آپ منافق ہیں۔ آپ ہر روز مختلف بات کرتے ہیں تو آپ کی کس بات کا یقین کیا جائے۔ بھٹو نے مسکرا کر جواب دیا۔ سیاسی لیڈرز مختلف اوقات میں مختلف باتیں کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کے مخالفین کنفیوژ رہیں ۔ان کی سیاست اور شخصیت کے بارے میں کوئی رائے یا نتیجہ اخذنہ کر سکیں۔ لہٰذا ایک سیاستدان کو ہر وقت مختلف باتیں کرتے رہنا چاہیے لیکن اصل بات دل ہی میں رکھے۔ بے شمار ایسے واقعات بیان کیے جاسکتے ہیں جہاں سیاستدان یا حکمران کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے اپنا موقف تبدیل کرلیا۔ سیاست دانوں اور حکمرانوں کو مسلسل مشاورت کرنا پڑتی ہے۔ وہ اپنے وزراء اور ساتھیوں کی آرا کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔قدرت اللہ شہاب صدر ایوب خان کے سیکرٹری تھے۔ایوب خان سیکولرفکر کی حامل شخصیت تھے۔ پاکستان کو بھی اسی رنگ میں رنگنا چاہتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بجائے جمہوریہ پاکستان رکھنے کا فیصلہ کیا تو شہاب نے انہیں مشورہ دیا کہ ایسا کرنے سے پاکستان کا مقصد وجودہی فوت ہوجائے گا۔ تحریک پاکستان کے دوران کیے گئے وعدوں اور دی گئی قربانیوں پر پانی پھرجائے گا۔ ایوب خان نے شہاب کے مشورے کو قبول کیا اور اپنے ارادے سے باز رہے۔ پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنانے کا جو وعدہ وزیراعظم عمران خان نے کیا تھا اس پر عمل درآمد کی تدبیر کرنی چاہیے۔ ستر برسوں کا گند صاف کرنا او رملک میں میرٹ کا نظام قائم کرنا کوئی سہل کام نہیں۔ یہ کام بتدریج ہوگا اور اس میں وقت لگے گا۔ سو دن کا ایجنڈا تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی پورا نہیں کرسکا تو وزیراعظم پاکستان کیا اور کیسے کرتے۔ جن کا خزانہ خالی اور حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں۔ کل شب پروفیسر رفیق اختر سے ایک مختصر نشست ہوئی۔عمران خان سے وہ شاکی رہے ہیں ۔کہنے لگے قدرت نے انہیں قومی خدمت کاموقع دیا ہے تو ہم بھی راضی ہیں۔البتہ نصیحت کی کہ عمران خان کو اب لمبی لمبی چھوڑنے یعنی دعوے کرنے میں محتاط ہونا چاہیے ۔ عوام کی ہی نہیں دنیا بھر کی نظریں ان کے قول وفعل پر جمی ہیں۔ ان کی کارکردگی کو مسلسل پرکھا جاتاہے۔پروفیسر رفیق اختر صاحب کی بات سے مجھے مکمل اتفاق ہے کہ عوام کو عمران خان کی حکمرانی کو صبر کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔ البتہ انہیں مسلسل اپنی کارکردگی بہتر کرنا ہوگی۔ فیصلوں پر بھی مسلسل نظرثانی کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اگر اچھا کام کرپاتے ہیں تو ان کی پشت پناہی کی جانی چاہیے لیکن اگر وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو نیا وزیراعلیٰ لانے میں کوئی تکلف نہیں برتنا چاہیے ۔اسی طرح دیگر وزراء اور مشیروں کی تعینانی اور تسلسل کو بھی کارکردگی اور دیانت داری کی کسوٹی پر پرکھاجانا چاہیے۔ سیاسی مخالفین کا کام حکومت کوتختہ مشق بنانا۔سرکار کی کارکردگی کو ناکامی کا عنوان دینا۔ اسے عوامی حمایت سے محروم کرنے کی سازشیں کرنا ہوتاہے۔وہ اپنے کام سے باز آنے والے نہیں۔ حکومت کو اپنی توجہ عوام کی فلاح وبہبود کے کاموں پر رکھنی چاہیے۔ ذاتی طور پر مجھے ابھی تک ملک درست سمت میں گامزن نظر آتاہے۔ عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی اہم اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کرنا ہے۔ ماضی میں اداروں کے تصادم سے جنتا ملک کو نقصان ہوا اتنا غیر ملکی دشمنوں نے بھی نہیں پہنچایا۔ اداروں کے ساتھ ہم آہنگی برقراررہتی ہے تو ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔