اسلام، قرآن اور سید الانبیائﷺ کی شخصیت کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا آغاز طلوع اسلام کے تقریبا دو سو سال کے بعد شروع ہوا۔جب مسلمان فاتحین نے ایران کی عالمی سلطنت کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا اور روم کی سلطنت کے وسیع حصوں مصر، مراکش، شام، الجزائر یہاں تک کہ 711 عیسوی میں اسپین کے بادشاہ روڈرک (Roderik) کو شکست دی ، اور عیسائت کو موجودہ اٹلی یعنی روم اور قسطنطنیہ یعنی موجودہ استنبول تک محدود کر دیا۔ اسی دوران مسلمانوں کی قسطنطنیہ پرمسلسل یلغار جاری تھی کہ روم کے کلیسا نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں ایک منفی پراپیگنڈے کا آغاز کیا۔ نویں صدی عیسوی میں رسول اکرم ﷺکو نعوذباللہ دشمنِ عیسیٰ علیہ السلام یعنی Antichrist کہا گیا جس کا عدد 666 بتایا گیا۔ باقاعدہ اسلام دشمن تحریروں میں پہلا نام نائی سیٹس آف بازنطین (Nicetas of Byzantium) کا آتا ہے جس نے پہلی دفعہ ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان تھا ’’قرآن محمدؐکی تصنیف ہے‘‘ (نعوذ باللہ)۔ اس کتاب میں قرآن پاک کے غلط ترجمے کیے گئے مثلا سورہ اخلاص میں لفظ ’’الصمد‘‘کو ’’صم‘‘ سے مشتق کر کے اس کا ترجمہ کوئی گول سی چیز کیا گیا اور بتایا کہ پیغمبر اسلام نے خدا کو اس طرح سمجھا ہے۔ اس دور میں روم کی بازنطینی سلطنت پر مائیکل سوئم( III Michail) کی حکومت تھی جو 842 عیسوی سے 867 عیسوی تک وہاں برسراقتدار رہا ہے۔ نائی سیٹس نے اس کے کہنے پر تین کتابیں لکھیں جن کا بنیادی مقصد اسلام اور سید الانبیائﷺکی ذات کی تنقید تنقیص تھا۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی کیونکہ مسلمانوں اور اسلام کا ستارہ بام عروج پر رہا۔ بغداد و طلیطلہ کے علمی مراکز جگمگا رہے تھے، اسی لیے تحریف قرآن اور توہین رسالت کی یہ مہم آگے نہ بڑھ سکی۔ یہاں تک کہ 29 مئی 1453 کو 21سالہ سلطان محمد فاتح نے رومن بازنطینی سلطنت کے مرکز قسطنطنیہ کو 53 روزہ محاصرے کے بعد فتح کرلیا اور مسیحی یورپ کا آخری تاجدار کونسٹنٹائن یاز دہم (Constantine XI ) کا اقتداربھی ختم ہوگیا۔ وہ رومی سلطنت جو 27 قبل مسیح میں قائم ہوئی تھی پندرہ سو سال بعد اس کا سورج باسفورس میں غروب ہو گیا۔ یہ مسلمانوں کے عروج کا آخری سورج تھا جو عثمانی خلافت کی صورت میںطلوع ہوا تھا۔لیکن اس وقت تک مجموعی طور پر امت مسلمہ میں تاتاریوں کے حملوں اور غرناطہ کے سقوط کے بعد بحیثیت مجموعی ایک زوال کا آغاز ہو چکا تھا ،جبکہ دوسری جانب مسیحی یورپ انگڑائی لے رہا تھا۔ صلیبی جنگوں کا زمانہ گزر چکا تھا۔ان جنگوں نے یورپ کو مسلمانوں کے خلاف متحد کردیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں مسیحی یورپ کی اتحادی افواج کی شکست کا زخم تازہ تھا۔ بغداد، اسکندریہ اور طلیطلہ کے علمی مراکز سے جو روشنی مستعار لی گئی تھی اس سے یورپ میں تحریکِ احیائے علوم (Renaissance) کا آغاز ہو چکا تھا۔لیکن اس احیائے علوم کی تحریک کے ساتھ ساتھ یورپ کی زیرسرپرستی اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام ﷺکی تعلیمات اور شخصیت کو ایک غیر محسوس طریقے سے مسخ کرنے کی زیر زمین تحریک بھی چل رہی تھی۔ ان کوششوں کا آغاز 1537 میں الیگزنڈر پاگانینی نے ایک تحریف شدہ قرآن شائع کر کے کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسے خلافت عثمانیہ میں تقسیم کیا جا سکے۔ یورپ میں چھاپہ خانہ ایجاد ہو چکا تھا اس لیے اس تحریف شدہ قرآن کی لا تعداد کاپیاں بنائی گئیں۔ مسلمانوں پر مجموعی طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے علاقوں میں چھاپہ خانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ یہ حقیقت کے بالکل برعکس بات ہے۔ سلطان بایزید نے اپنے دور میں اسی قرآن پاک کی اشاعت کی وجہ سے صرف اور صرف عربی زبان میں کتابیں چھاپنے پر پابندی عائد کی تھی تاکہ اصل اور نقل کے درمیان عام آدمی پہچان کر سکے۔ جبکہ باقی تمام علوم اور مذاہب کے لوگوں کو کتابیں چھاپنے کی اجازت تھی۔ 1727 میں عربی زبان کی پرنٹنگ پر سے بھی پابندی اٹھا لی گئی، لیکن قرآن پاک اور احادیث کی پرنٹنگ کی اجازت نہ دی گئی۔ خطرہ وہی تھا کہ اس طرح غلط اور تحریف شدہ قرآن پاک لوگوں میں تقسیم نہ ہو جائے۔ لیکن 1742 میں ابراہیم متفریکہ نے پہلا پرنٹنگ پریس قائم کیا۔ یہاں ایک اور پروپیگنڈہ بھی عام ہے کہ علماء پرنٹنگ پریس کے مخالف تھے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جب تحریف شدہ قرآن کے تمام نسخے ڈھونڈ کر جلا دیے گئے اور پرنٹنگ پر پابندی برقرار تھی توجب ابراہیم نے اس کی اجازت کیلئے درخواست دی تو سلطان احمد سوئم نے مفتی شیخ عبداللہ سے رائے لی۔ مفتی صاحب نے کس قدر مناسب رائے دی۔ ’’چونکہ اس سے فائدہ ہو گا، مگر ذہین اور ہوشیار لوگ اس کام پر لگائے جائیں تاکہ چھپائی میں غلطی نہ ہو‘‘۔ دوسری جانب رسول اکرم ﷺکی شان میں غیر محسوس طریقے سے گستاخی والی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ 758 عیسوی میں پیدا ہونے والے ایک شاتم رسول تھیوفنس (Theophanes) کی کتاب (Chornicles) کو ڈھونڈ کر شائع کیا گیا۔ یہی وہ کتاب ہے جو پورے مغرب میں توہین رسالت کا ماخذ تصور ہوتی ہے اور آج بھی جب کسی نے میرے پیارے آقا ﷺکی شان میں گستاخی کرنا ہو تو وہ اس کتاب کی ایک عبارت کا ’’نقل کفر کفر نہ باشد‘‘ حوالہ دیتا ہے۔ تھیوفنس کی اس بے بنیاد اور توہین آمیز عبارت پر گزشتہ پانچ برس سے سرکار دو عالم ﷺ پر سائنسی، نفسیاتی اور معاشرتی تحقیق کے نام پر بکواس کی جاتی رہی ہے، ہرزہ سرائی کی گئی ہے۔ جب میں یونیورسٹی میں نفسیات پڑھ رہا تھا اور آج بھی جو طلبہ دنیا کی یونیورسٹیوں میں نفسیات اور دیگر علوم کا مطالعہ کرتے ہیں تو انتہائی غیر محسوس طریقے سے کتاب کے اس حوالے سے میرے پیارے آقا ﷺ کی شخصیت کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر وہ گمراہ سیکولر اور لبرل استاد اس غلیظ اور گستاخانہ کتاب کا برسبیل تذکرہ حوالہ دیتے ہوئے کہہ جاتا ہے کہ دیکھو یہ آج سے بارہ سو سال پہلے لکھی گئی تھی، اس لیے یہ بنیادی ماخذوں میں سے ایک ہے۔ یہ ہے وہ علمی بددیانتی جو مغرب نے یونیورسٹیوں میں رائج کر رکھی ہے کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے بنیادی ماخذ قرآن و حدیث اور سیرت نہیں ہے بلکہ مستشرقین (Orientalist) کی وہ کتابیں ہیں جو انہوں نے اسلام قرآن اور رسول اکرمﷺ کی شخصیت کے بارے میں تحریر کیں ہیں۔ یہ تمام لکھاری اور مورخ وہ تھے جو چرچ کی سرپرستی میں کتابیں تحریر کرتے تھے۔ یہ انتہائی چالاکی سے ایسے لکھتے کہ وہ غیر جانبدار نظر آئیں اور بظاہرلگے کہ وہ مسلمانوں کے حق میں لکھ رہے ہیں۔ اسی لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے انتہائی غیر جانبداری اور اخلاص سے اسلام پر کام کیا ہے۔ حالانکہ وہ اپنی کتابوں میں خاموشی سے ایسا میٹھا زہر بھر دیتے تھے جس سے اسلام، قرآن اور سید الانبیائﷺ کی تعلیمات مسخ ہو کر رہ جاتیں۔ یہ کون تھے اور انہوں نے کیسے رسول اکرمﷺ کی شخصیت کو غیرمحسوس انداز میں نعوذباللہ انسانیت کا دشمن بنا کر پیش کیا۔ یہ ایسی کتابیں ہیں جو دنیا بھر میں گستاخانہ خاکوں کا ماخذ ہیں اور یہ سب کی سب دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں اور پاکستان کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں آج بھی سنبھال کر رکھی جاتی ہیں۔ یہ سب کون تھے اور کیا تحریر کرتے رہے؟ یہ آئندہ کالم کا موضوع ہوگا۔ (جاری ہے )