قرآن وحدیث اور تعلیمات اسلامی کے بارے میں تشکیک پیدا کرنے کاعمل مسیحی یورپ میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گذشتہ ایک ہزار سال سے جاری ہے۔ لیکن اس سارے عمل کو تحقیق و جستجو کے خوب صورت لبادے میں چھپا کر نہ صرف مغرب کے طالب علموں بلکہ مسلمانوں کے درمیان بھی ایک غیر محسوس طریقے سے پھیلایا گیا۔ یورپ میں جب مذہب بیزاری کی سیکولر تحریک شروع ہوئی تو جہاں عیسائیت، پوپ، چرچ اور حضرت عیسیٰ کی ذات ہدف تنقید بنی، احترام کا پردہ تار تار ہوا تو اسی اصول کی بنیاد پر پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا۔ طریقِ کار یہ اختیار کیا گیا کہ ہم لوگ دراصل تہذیبوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ہر تہذیب میں جنم لینے والے مصلحین، فلسفی، سماجی نابغے، شاعر اور دیگر کی تعلیمات کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔ یوں ان محققین نے ہر معاشرے کے پیغمبروں کو سب سے پہلے عام انسانی فلسفیوں، مصلحین اور انقلابیوں کی صف میں لاکھڑا کیا، وحی الہی کا انکار تو آزادانہ تحقیقی خیالات کی بنیاد تھی ، اس لئے تمام مذہبی کتابوں کو بھی انسان کی اعلیٰ ترین تخلیق کے مرتبے پر جانچا جانے لگا۔ یوں پیغمبروں کی شخصیات بھی مصلحین، ریفارمرز یا انقلابی رہنماوں کے برابر لا کر کھڑی کردی گئیں۔ اس کے بعد جس طرح تمام انسانی رہنماؤں میں خامیاں ہوتی ہیں اور ان کی تعلیمات اضداد کا مجموعہ ہوتی ہیں، ویسے ہی پیغمبروں کی ذات کو بھی معصوم عن الخطاء کے درجے سے گرا کران مفکرین نے اپنی ساری صلاحیتیں اس بات پر مرکوز کردیں کہ بحیثیت انسان پیغمبروں نے زندگی میں ایک عام انسان کی حیثیت سے کون کون سی غلطیاں کیں۔ ان تمام محققین کی نظر میں پیغمبروں کا مقام زیادہ سے زیادہ معاشرے میں ایک سلجھے ہوئے، ذہین، بااخلاق اور اچھے کردار رکھنے والے سے زیادہ نہ تھا۔ایک ایسا فرد جو خامیوں سے مبرا نہ ہو اور جسے کوئی غیر انسانی یا عالم بالا سے اللہ یا فرشتوں سے رہنمائی میسر نہ ہو۔ آج کے سیکولر اور لادین مغرب کو صدیوں اسلام دشمنی میں لکھی گئی تاریخ نے لوریاں دے کر پالا ہے۔ جب یورپ پر مسیحیت کا غلبہ تھا تو 1106 ء میں لاطینی زبان کا ایک یہودی عالم پیٹرس الفانسو (Petrus Alphonsi) عیسائی ہو گیا۔ یہ شخص 1120ء میں سپین سے انگلینڈ آیا تو اسے وہاں کے عیسائی راہبوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہ عربی خوب جانتا تھا اور اس نے الف لیلی کا ترجمہ بھی کر رکھا تھا۔ یہ پہلا مورخ، ادیب اور فلاسفر تھا جس نے قرآن کو ایک غیر الہامی کتاب بتایا، اسلام کے ارکان اور عقیدوں کا مذاق اڑایا اور تاریخی واقعات میں جھوٹ ملا کر اسے اپنے طور پر سچی تاریخ بنا کر پیش کیا۔ یہاں تک کہ اس نے الف لیلی کے کردار سندباد جہازی کے نام سے کچھ خود ساختہ کہانیاں لکھیں اور اصل الف لیلی میں ضم کر دیں، جنہیں آج بھی یورپ اصل الف لیلی کے طور پر سمجھتا ہے۔ اس کے بارے میں یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ وہ لبرل آرٹس(Libral Arts)کا ماننے والا ایک غیر متعصب شخص تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس لبرل آرٹس کے لبادے میں اسلام کا چہرہ مسخ کرنے اور رسول اکرمﷺ کی ذات کو غلط انداز میں پیش کرنے کی ناپاک کوشش کی۔ یہی وہ دور تھا جب 1095ء میں پوپ اربن دوئم کے صلیبی جنگوں کے مشہور خطبے نے پورے یورپ میں انتقام کی آگ سلگا رکھی تھی۔ پیٹرس الفانسو کی کتابوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ لوگوں میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ ایک عالم جو عربی جانتا ہے، بنیادی طور پر ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا، اس نے "تعصب سے بالاتر" ہو کر یہ کتابیں لکھی ہیں، وہ عیسائیت کی حقانیت کو دیکھ کر عیسائی بھی ہو چکا تھا، ایسے عظیم شخص کے تو ایک ایک لفظ پر اعتبار کیا جانا چاہیے۔ چرچ نے اسلام اور رسول اکرمﷺ دونوں کے خلاف اس شخص کی تحریروں کو خوب استعمال کیا۔ یورپ کو متحد کیا اور یوں پہلی صلیبی جنگ 1095 سے 1099 تک لڑی گئی، دوسری (1149-1147) تیسری (1192-1187)، چوتھی (1204-1202)، پانچویں (1221-1217)، چھٹی (1229-1228)، ساتویں (1270)، نویں (1272-1271) اور اس کے بعد آخری صلیبی جنگ 1464 میں ہوئی۔ ان صلیبی جنگوں سے دو نتیجے برآمد ہوئے۔عیسائی مشنری جہاد کے نام پر اس قدر سرمایہ اکٹھا ہوا کہ ہر شہر اور قصبے کا چرچ مالدار ترین ادارہ ہوگیا اور دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ جب یورپ کے جاہل، گنوار اور جنگلی جنگجوؤں نے دمشق، بغداد اور قاہرہ کی گلیاں دیکھیں جو پختہ تھیں، راتوں کو سٹریٹ لائٹ، اور نہانے کے لئے گرم حمام جیسی سہولیات انہیں نظر آئیں، ہزاروں بستروں پر مشتمل ہسپتال اور 24 گھنٹے کھلی رہنے والی لائبریریاں اور لیبارٹریاں ان کے مشاہدے میں آئیں تو وہ اس اسلامی تہذیب سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ واپس لوٹ کر انہوں نے صرف اور صرف علم کے حصول پر اپنی توجہ مبذول کردی اور ان تمام اصول مدنیت (Civic principles) کو اپنے شہروں میں نافذ کرنا شروع کردیا۔ اسی تبدیلی کی کوکھ سے مائیکل اینجلو اور لیونارڈ ڈاونچی جیسے آرٹسٹ اور ایڈلیڈ، گلیلیو جسے سائنسدانوں نے جنم لینا شروع کردیا۔ ایک مدت گزرنے کے بعد اسی تحریکِ احیائے علوم کی کوکھ سے سیکولرزم اور لبرلزم نے جنم لیا۔ چرچ کی بادشاہی کے خاتمے کے لیے تو تحریک چلانا پڑی اور لوگوں کو منظم کیا گیا،لیکن اسلام کے خلاف اس کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ کئی صدیوں سے عیسائی چرچ نے اسلام اور رسول اکرم ﷺکے خلاف مواد جمع کر رکھا تھا جسے سیکولر لبرل محقق آزادی اظہار، غیر متعصب تاریخ نویسی اور مذاہب کے مطالعے کے نام پر دوبارہ منظر عام پر لے آئے اور اس میں بے شمار اضافہ بھی کیا گیا۔اسی "علمی جدوجہد "کی کوکھ سے مستشرقین ( Orientalist) پیدا ہوئے۔ یہ مستشرقین ( Orientalist) بظاہر تاریخ دان اور مذاہب کے مطالعہ کرنے والے غیر متعصب سکالرز کے روپ میں سامنے آئے اور آج بھی دنیا بھر کی درسگاہوں میں انہیں ویسے ہی پیش کیا جاتا ہے۔ ان میں سے پہلا نام ہنری اسٹب (Henry Stubbe)کا ہے جس نے 1671 میں ایک کتاب تحریر کی جس کا نام تھا"The rise and Progress of Mohammedanism "محمد ازم کا ظہور اور ترقی"۔ یہ بظاہر ایک غیر جانبدارانہ تحریر تھی مگر اس میں تاریخی غلطیاں اس لیے در آئیں کیونکہ اسلام کے بارے میں ابتدائی عیسائی تحریریں حوالے کے طور پر استعمال ہوئی تھیں۔ اس کتاب کے بعد جو کتاب 1718 میں منظر عام پر آئی وہ جان ٹولینڈ (John Toland) کی کتاب یہودیت پرستی اور محمدن عیسائیت "Jewish gentile and Mohamdian Christianity" تھی۔ آئرلینڈ میں پیدا ہونے والا یہ آزاد خیال فلسفی کئی کتابوں کا مصنف تھا۔ وہ خود کو دلیل اور منطق کا نمائندہ ادیب خیال کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے بائبل کے دفاع میں ایک ایسی کتاب لکھی، جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بائبل کی ایک بھی آیت دلیل اور منطق سے ماورا نہیں ہے۔ اسکی اس کتاب کا نام "Christianity not mysterious"(عیسائیت عقل سے ماورا نہیں) ہے۔ ان دونوں مصنفین کی کتابوں کا نچوڑ یہ تھا کہ دنیا میں تمام مذاہب دراصل ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، سب ایک ہی پیغام لائے ہیں، ان میں آفاقیت ہے، اس لئے بین المذاہب ہم آہنگی کا تقاضا یہ ہے کہ سب مذاہب کی اچھی اچھی تعلیمات اور شخصیات کو عالمی سطح پر مانا جانا چاہے اور انسانیت دشمن تعلیمات اور شخصیات کا سختی سے رد کیا جانا چاہیے۔ اسی بظاہر ایک اعلی مقصد کی آڑمیں سے ایک راستہ نکالا گیا کہ کس طرح رسول اکرم ﷺکی شخصیت کو نعوذباللہ ایک انسانیت دشمن پیرائے میں پیش کیا جائے اور اسلام کی تصویر ایک خونی مذہب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کی جائے۔ 1671ء سے لے کر آج تک ساڑھے تین سو سال میں ہزاروں ایسے مصنف پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اسی آزاد خیالی (free thinking) اور غیر متعصبانہ سوچ(Objection thought ) جیسے اعلی و ارفع مقاصد کی آڑ میں اسلام، قرآن اور رسول اکرمﷺکی شخصیت کو مسخ کرنے کی جسارت کی۔ (جاری ہے)