روپے کی قدر میں کمی کے بعد یوریا کھاد اورسیمنٹ مہنگا کردیا گیا۔ یوریا کھاد کی قیمت ملک کی دو بڑی نجی کمپنیوں نے ازخود بڑھائی ہے۔ دنیا بھر میں زراعت کے شعبے کی سرپرستی کر کے اورکسانوں کو مراعات فراہم کر کے حکومتیں معیشت کے استحکام کے لیے کام کرتی ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کسانوں کو بے پناہ مراعات دی جاتی ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا 70 فیصد دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ ان افراد کا گزر بسر زراعت پر ہی ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے انہیں مہنگی کھادیں، زرعی ادویات، مشینری اور پھر مہنگے داموں ذرائع نقل و حمل کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد جب فصل تیار ہوتی ہے تو اس پر اس قدر خرچہ آ چکا ہوتا ہے کہ فصل وہ پورا ہی نہیں کرسکتی۔ پاکستان کو مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 22 فیصد زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے اس کے باوجود حکومت کسانوں کو وہ مراعات فراہم نہیں کرتی جس کے وہ حقدار ہیں۔ اب ڈالر کے مہنگا ہوتے ہی یوریا کھاد کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے لیکن جب فصل تیار ہو کر مارکیٹ میں آئے گی تو کسان کو ویسے دام نہیں ملتے جیسی اس نے محنت کی ہوگی۔ ستم بالائے ستم حکومت نے کھاد پر بھی جی ایس ٹی ٹیکس کا نفاذ کر دیا ہے جس نے رہی سہی کسر ویسے ہی نکال دی ہے۔ حکومت اگر کسانوں کو ریلیف فراہم نہیں کرسکتی تو کم از کم ان سے فصل تو اچھے داموں خریدے تاکہ ان کے اخراجات پورے ہو جائیں۔ جب فصل تیار ہو کر مارکیٹ میں آتی ہے تو حکومت خاموش تماشائی کا کردار نبھاتی ہے اور مافیا کو کسانوں کے استحصال کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر حکومت کسانوں کو ان کے اخراجات ہی واپس کردے تو وہ خوش دلی سے اپنے شعبے کو مزید وسعت دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ حکومت استحصال کر کے کسانوں کو ہمنوا نہیں بنا سکتی۔ اس لیے اسے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہو گی تاکہ کسان خوشحال رہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے بعد یوریا کھاد اورسیمنٹ مہنگا کردیا گیا۔ یوریا کھاد کی قیمت ملک کی دو بڑی نجی کمپنیوں نے ازخود بڑھائی ہے۔ دنیا بھر میں زراعت کے شعبے کی سرپرستی کر کے اورکسانوں کو مراعات فراہم کر کے حکومتیں معیشت کے استحکام کے لیے کام کرتی ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کسانوں کو بے پناہ مراعات دی جاتی ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا 70 فیصد دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ ان افراد کا گزر بسر زراعت پر ہی ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے انہیں مہنگی کھادیں، زرعی ادویات، مشینری اور پھر مہنگے داموں ذرائع نقل و حمل کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد جب فصل تیار ہوتی ہے تو اس پر اس قدر خرچہ آ چکا ہوتا ہے کہ فصل وہ پورا ہی نہیں کرسکتی۔ پاکستان کو مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 22 فیصد زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے اس کے باوجود حکومت کسانوں کو وہ مراعات فراہم نہیں کرتی جس کے وہ حقدار ہیں۔ اب ڈالر کے مہنگا ہوتے ہی یوریا کھاد کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے لیکن جب فصل تیار ہو کر مارکیٹ میں آئے گی تو کسان کو ویسے دام نہیں ملتے جیسی اس نے محنت کی ہوگی۔ ستم بالائے ستم حکومت نے کھاد پر بھی جی ایس ٹی ٹیکس کا نفاذ کر دیا ہے جس نے رہی سہی کسر ویسے ہی نکال دی ہے۔ حکومت اگر کسانوں کو ریلیف فراہم نہیں کرسکتی تو کم از کم ان سے فصل تو اچھے داموں خریدے تاکہ ان کے اخراجات پورے ہو جائیں۔ جب فصل تیار ہو کر مارکیٹ میں آتی ہے تو حکومت خاموش تماشائی کا کردار نبھاتی ہے اور مافیا کو کسانوں کے استحصال کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر حکومت کسانوں کو ان کے اخراجات ہی واپس کردے تو وہ خوش دلی سے اپنے شعبے کو مزید وسعت دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ حکومت استحصال کر کے کسانوں کو ہمنوا نہیں بنا سکتی۔ اس لیے اسے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہو گی تاکہ کسان خوشحال رہے۔