اُردو دنیا کے بے مِثل مزاح نگار،ناقابلِ تقلید نثر نگار اور عملی زندگی میں کامیاب ترین انسان جناب مشتاق احمد یوسفی کی آج تیسری برسی ہے۔وہ چار ستمبر 1921کو ٹونک راجھستان کے یوسف زئی گھرانے میں جناب عبدالکریم یوسفی کے ہاں تولد ہوئے اور 20 جون 2018 کو ڈھائی ماہ کم ستانوے برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کیا۔ ست ماہے پیدا ہونے والے اس بچے کی پوری زندگی مسلسل کامرانیوں سے اَٹی پڑی ہے۔ سنہری کامیابیوں کا جے پور سکول کالج سے شروع ہونے والا سفر علی گڑھ یونیورسٹی میں ایم اے فلسفہ کو گولڈ میڈل کے ساتھ ٹاپتا ہوا آئی سی ایس کے ذریعے ڈپٹی کمشنری پہ لمحہ بھر کو رُکا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب ان کے والد جے پور اسمبلی کے سپیکر اور سسر سیشن جج کے عہدے پر فائز تھے کہ اُردو کی محبت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ پاکستان چلے آئے۔ یہاں نئے سرے سے بنک ملازمت کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بینکنگ کونسل کے چیئرمین کے عہدے تک جا پہنچے ۔ جنرل ضیاالحق سے اختلاف کی بنا پر لندن سدھارے اور گیارہ سال بی سی سی آئی میں اعلیٰ ترین عہدہ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اسی طرح اُردو مزاح میں بھی بے شمار ناقدین کے بقول ان کی رسائی اردو نثر کی معراج تک ہوئی۔ دنیاوی کامیابیوں میں ایسی انتہائی رسائی حاصل کر لینے والے اس ادیب کے آخری ایام پہ نگاہ دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی زندگی کے ان سالوں میں انھوں نے اپنی ضروریات اور استطاعت کے پیشِ نظر خود کو عام گھروں کی رسوئی جتنے ایک چھوٹے سے کمرے تک محدود کر لیا تھا، جو ہر طر ف سے کتابوں سے اَٹا پڑا تھا۔ اس کمرے سے باہر جانے کی ان میں سکت تھی نہ مزاج۔ ذرا دیکھیے اس محدودیت کو ’شامِ شعر یاراں‘ میں انھوں نے کس پُر لطف انداز سے بیان کیا ہے۔ ’’ایک کشادہ، آرام دہ باتھ روم ہے جسے مَیں متواتر اور بکثرت استعمال کرتا ہوں۔ اگر آپ چھوٹتے ہی دریافت فرمائیں کہ بکثرت کیوں؟ تو میرا جواب وہی ہوگا جو حلوائی کے لونڈے نے دیا تھا! بہرحال اس کشادہ باتھ روم کے ساتھ ایک اٹیچڈ کمرہ ہے جو کہنے کو تو اسٹڈی کہلاتا ہے لیکن یہ میری لائبریری، ورکشاپ، ٹی وی لاؤنج، کمرۂ علالت و عدم نگہداشت، خلوت کدہ، کتاب گودام، خواب گاہ، دھیان کی گھُپا، کلبۂ احزاں، عشرت کدہ، گوشۂ اعتکاف، سمادھی، بودھ گیا، دیوارِ قہقہہ، سب ہی کچھ ہے! اس کمرے کی چاروں دیواروں کے ساتھ لگے رَیکس میں چھت تک کتابیں قطار اندر قطار سجی اور مہینوں سے گرد میں اٹی ہیں۔ ان کتابوں سے استفادہ تو گاہے بگاہے ہی ہوتا ہے، البتہ ایک مستقل فائدہ یہ ہوا کہ چھپکلیوں نے آنا چھوڑ دیا، اس لیے کہ ان کے رینگنے کے لیے جگہ نہیں بچی۔ فرش پر کتابوں کی ڈھیریاں، تہ بہ تہ بنڈل، کتب مینار، اٹمبار اور دھانگ لگے ہیں۔ اسی کونے میں پرانے اور بوسیدہ رسالوں کا استوپا بھی ہے… اپنی کرسی سے مطلوبہ کتاب تک پہنچنا اتنا ہی محال ہے جتنا کہ حاکموں اور حسینوں تک رسائی! … لہٰذا مَیں نے ناپسندیدہ کتابوں، علامتی افسانوں، اور نثری نظموں کے چند مجموعوں کو تلے اوپر رکھ کر18×18×18 انچ کا ایک چبوترہ بنا لیا ہے جس پر بیٹھ کر فون پر افتخار عارف، زہرا نگاہ اور روبینہ سے ادبی گفتگو کرتا ہوں۔ کمرے کے ایک کونے میں میری ’’آرام چیئر‘‘ ہے، جس پر صبح نو بجے سے رات دو بجے تک (تین گھنٹے کا وقفہ برائے لنچ، قیلولہ اور ڈنر) بیٹھا رہتا ہوں ۔ یہ کرسی میرا جوگیا مِرگ چھالا ہے اور یہی میرا راج سنگھاسن اور تختِ طاؤس۔اس کو ہر دو معنی میں بوریائے فلاکت (وہ بوریا جس پر قتل ہونے والے کو بٹھاتے ہیں) بھی کہہ سکتے ہیں۔اس سے تین انچ کے فاصلے پر میرا 3×6فٹ بیڈ ہے، جس پر ٹھیک دو بجے شب زرد چادر اوڑھ کر سونے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میری بے حد پسندیدہ بسنتی رنگ کی یہ چادر مرحومہ (ادریس فاطمہ) نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھ سے اپنے لیے سی تھی۔ آخری دن دمِ وداع یہی چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ رخسار بھی ہم رنگِ چادر ہو چلے تھے۔ سب نے کہا یہ چادر بھی فَقیر فُقرا کو دے دِلا دو۔ سو مَیں نے سب سے اُتاؤلے باؤلے سوالی، دھجا دھاری بیراگی کو یہ کفنی سونپ دی: کہیں اوڑھ چَدَریا سجنی گئی ، کوئی کفنی پہنے راہ تکت ہے! ممکن ہے ذہین قارئین یہ سوچ رہے ہوں کہ جب کمرے کا یہ حشر ہو گیا کہ پاؤں دھرنے کی جگہ نہ رہی تو اپنا بوریا بستر کسی دوسرے کمرے میں کیوں نہیں لے جاتے؟ عرض ہے کہ موجودہ کمرے کی خوبی یہ ہے کہ صبح سات بجے جب آنکھ کھلتی ہے تو پہلی نظر کتابوں اور اُس بھاگ بھری کی تصویروں پر پڑتی ہے، جس نے ساٹھ سال تک بے مثل رفاقت کا حق ادا کیا۔ اُسے اس لیے بھی خوش نصیب کہوں گا کہ ’’خوش مرگ تُو کہ ماتمِ یاراں نہ دیدہ ۔ یہ سچ ہے کہ دوسرا کشادہ کمرہ چھے فٹ کے فاصلے پر خالی پڑا ہے، اگر مَیں اُس ننگ دھڑنگ کمرے میں منتقل ہو گیا تو یہ تصویریں اور کتابیں جو زمانۂ طالب علمی سے میری’روم میٹ‘ اور مُونس و غمگسار رہی ہیں، کیا کہیں گی؟ انھوں نے مجھے ہر عالم میں دیکھا ہے۔دُکھ درد میں شریک رہی ہیں۔ نیک صلاح بھی دی ہے اور اکثر سرزنش و تنبیہ کے بعد چُمکارا، پُچکارا بھی ہے۔ان سے زیادہ طاقتور، دافع درد و افسردگی، ان سے زیادہ زود اثر، مُسکّن اور خواب آور دوا مَیں نے نہیں دیکھی۔ان کے بغیر خوش رہنا تو بعید از قیاس ہے، ان سے بچھڑ کر تو اُس ٹھہراؤ، رچاؤ اور آن گیان کے ساتھ اداس بھی نہیں ہو سکتا!! مجھے تو کچھ اور آتا بھی نہیں۔‘‘ یہ سن کر مرزا فرمانے لگے: ’’اسّی نوے برس کی عمر میںنیا ہنر آنا تو درکنار، آدمی پرانا عیب تک نہیں کر سکتا، بُڈھے طوطے اپنی ٹیں ٹیں تک بھول جاتے ہیں۔ تم خود کہنے لگے ہو کہ مدّت العمر سے شدّت العمر میں مبتلا ہوں۔‘‘