آج (5 اگست) دنیا بھر میں یوم استحصال کشمیر منایا جارہا ہے۔ گزشتہ سال 5 اگست کے روز بھارت کی انتہا پسند حکومت نے کشمیریوں سے رائے لیے بغیر مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی تھی۔ بی جے پی حکومت نے کشمیری عوام کے ممکنہ ردعمل کے خوف سے پوری وادی میں کرفیو نافذ کر کے جگہ جگہ فوج تعینات کردی۔ 5 اگست 2019ء سے 5 اگست 2020ء تک ہزاروں محصور کشمیری گرفتار کئے گئے۔ فوجی آپریشن کر کے نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ بچوں کو مائوں سے جدا کر کے ایسے برین واشنگ مراکز میں چھوڑ دیا گیا جنہیں بھارت اصلاحی مرکز کا نام دیتا ہے۔ سینکڑوں خواتین بھارتی فوجیوں کی بدسلوکی کا نشانہ بنی اور درجنوں کی عصمت دری کی گئی۔ اس ایک سال کے دوران بھارتی فوج نے کشمیری باشندوں کے باغات کاٹ کر ان کے روزگار کا خاتمہ کیا۔ دکانوں کو آگ لگائی اور دفاتر پر تالے لگا دیئے۔ بے شمار مریض ہسپتال نہ جا سکے اور گھر میں انتقال کر گئے۔ انٹرنیٹ‘ ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن کے رابطے معطل ہیں۔ اس ماحول میں مودی حکومت نے ایک اور متنازع قانون ڈومیسائل کے سلسلے میں منظور کیا۔ اس قانون کے تحت بھارت کے شہریوں کو کشمیر کا ڈومیسائل بنوانے کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کی آڑ میں غیرریاستی افراد کی بڑی تعداد کشمیر میں لائی جا رہی ہے۔ بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ سستے مکان بنا کر پنڈتوں اور غیر ریاستی سابق فوجیوں کویہاں آباد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ سب کچھ پچھلے ایک سال کے دوران ہوا لیکن عالمی ضمیر کی بے حسی برقرار رہی۔ 1947ء میں قانون آزادی ہند کے تحت اہل کشمیر کو اپنی منشا کے مطابق پاکستان کے ساتھ الحاق کی اجازت نہ دی گئی اور ڈوگرہ حکمران نے پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مل کر کشمیر پر بھارت کا قبضہ کروا دیا۔ الحاق کی دستاویز کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان نے پیشقدمی کرتی بھارتی افواج کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا جو علاقہ بھارتی فیصلے سے آزاد کروایا وہ آزادکشمیر کے نام سے دنیا کے نقظے پر موجود ہے۔ یکم جنوری 1948ء کو بھارت نے اقوام متحدہ کے منشور کی شق 35 کے تحت سلامتی کونسل سے رجوع کیا۔ بھارت کے وزیراعظم پنڈت نہرو نے خود جنگ بندی کی اپیل کی۔ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 39 میں تنازع کی تحقیقات فوری طور پر کرانے کا کہا گیا۔ یہ کام اقوام متحدہ کے کمشن برائے پاک بھار ت(UNCIP) کے ذمہ لگایا گیا۔ 21 اپریل 1948ء کو سکیورٹی کونسل نے قرارداد نمبر 47 کے ذریعے فریقین کو جنگ بندی کی ہدایت کی اور کشمیر میں استصواب رائے کا کہا۔ بھارت نے استصواب رائے کی شرط کو تسلیم کیا۔ طویل عرصے تک اہل کشمیر استصواب رائے کا خواب دیکھتے رہے اور آخر کار 1989ء میں کشمیریوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا۔ بھارت نے اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے وادی میں 7 لاکھ فوج تعینات کردی۔ اپنی غیرقانونی سرگرمیوں کو قانونی تحفظ دینے کے لیے بھارت نے پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ نافذ کئے۔ یہ ایکٹ کشمیریوں پر ظلم توڑنے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت سے آزادی کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کئے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 7120 افراد کی موت بھارتی حراست میں ہوئی۔ 5 اگست 2019ء کو ہندو توا کی علمبردار مودی حکومت نے مہاراجہ کشمیر اور پنڈت نہرو کے درمیان الحاق کی شرائط پر مشتمل شق 370 اور شق 35 اے کو ختم کردیا۔ یوں شیخ عبداللہ کا خاندان اور چند دیگر سیاستدان کشمیری باشندوں کو بھارت کا وفادار رہنے کی جو وجہ بیان کیا کرتے تھے مودی حکومت نے اس کا خاتمہ کرکے مقبوضہ وادی پر اپنا قبضہ کرلیا۔ بھارت نے کشمیر کو دو علاقوں میں بانٹ دیا۔ اقوام متحدہ نے جس علاقے کو پاکستان اور بھارت کے مابین متنازع قرار دے رکھا ہے۔ بھارت نے اس پر قبضہ کر کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ۔ ستمبر 2019ء میں پاکستان نے کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا۔ وزیراعظم عمران خان کی پرجوش اور مدلل تقریر نے انصاف پسند ریاستوں کو متاثر کیا لیکن افسوسناک امر یہ رہا کہ سکیورٹی کونسل میں چین کے سوا کسی مستقل رکن نے بھارت کی مذمت نہ کی۔ پاکستان اور بھارت سے کہا گیا کہ دونوں باہمی مذاکرات سے تنازع طے کریں۔ سکیورٹی کونسل بھارت کو مقبوضہ وادی کی حیثیت بدلنے کے اقدامات سے باز رکھنے کے لیے کوئی قرارداد پیش نہ کرسکی۔ اقوام متحدہ کی عدم دلچسپی‘ بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی طاقتوں کی جانب سے کشمیریوں کی بے بسی کو مسلسل نظرانداز کرنے پر 5 اگست کو یوم استحصال منایا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان‘ وزیراعظم آزادکشمیر اور پوری دنیا میں رہنے والے کشمیری اس ناانصافی اور جبر کے خلاف آزادکشمیر اور پاکستان میں مختلف تقریبات میں شریک ہورہے ہیں۔ کشمیری شہری اقوام متحدہ کے سامنے زنجیر بنائیں گے۔ پاکستان نے کشمیر ہائی وے کا نام سرینگر ہائی وے رکھ دیا ہے۔ محاصرے کی ایک سالہ مدت پر یادگاری ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ترک صدر طیب اردوان نے وزیراعظم عمران خان کو فون کر کے کشمیر پر حمایت کا یقین دلایا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے استصواب رائے کے لیے پرعزم کشمیریوں کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان اور پاکستانی عوام جدوجہد آزادی میں کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب کشمیری بھائی بھارتی جبر سے رہائی پا کر آزادی کا سورج دیکھیں گے۔