ہم نے یوم ِاقبال پر کچھ لکھا نہیں یا اپنا خون نہیں جلایا تو اس کی کوئی وجہ تو ہو گی۔ جون پور کو ہندوستان کا شیراز کہا جاتا ہے۔یہ نام شیراز کے عاشق شہنشاہ ِہند شاہ جہان کا دیا ہوا ہے۔شہنشاہ کا اپنا اصل نام شہاب الدین محمد خرم تھا۔مشہور وہ شاہ جہان سے ہوا۔یہ صوفیا ،شعرا اور حکما کا شہر ہے۔وہاں کے ایک شاعر بیدل جونپوری ہو گزرے ہیں ۔انہوں نے چھٹیوں یا سرکاری یعنی گزیٹڈ چھٹیوں کے بارے میں کیا خوب کہا تھا سب سے اچھا محکمہ ہے تعلیمات تعطیلاتن تعطیلاتن تعطیلات عورتوں کے بس یہی ہیں تین کام فیشناتن میکپاتن چغلیات اب آپ خود سمجھ دار ہیں کہ یہ قطعہ گزیٹڈ ہالیڈیز کے متعلق ہے یا عام چھٹیوں کے متعلق۔یا محض خواتین کے بارے میں ہے۔آج کل نسائی دور ہے سو خواتین اور ان کے میک اپ کے بارے میں ہم بیدل کے کہے پر کچھ نہیں گے۔ جونپور بھی کیا شہر ہے حفیظ جونپوری بھی وہیں کے تھے۔ بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے بیدل جونپوری کا قطعہ ہمیں اقبال ڈے کی اچانک اور غیر متوقع چھٹی کے اعلان پر یاد آیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکمرانی کے سابق دور میں یوم ِاقبال کی چھٹی کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا۔اس کی اصل وجہ تو خانوادہ ِ اقبال کی تحریک انصاف میں شمولیت تھی مگر اس سے زیادہ اس حکومت کے مطابق" قوم کو کام کرنا چاہیے چھٹیاں نہیں" چونکہ اس جماعت کے لیڈران ہمہ وقت محنت کے عادی ہیں اس لیے ان کا پیغام یہی تھا کہ پوری قوم کو سر سُٹ کے کام میں کھب جانا چاہیے "اگوں تیری قسمت۔"یہ بھی شنید ہے کہ اس حکومت نے قائد اعظم کے فرمان کام کام اور کام کو مات دے دی ہے اور ایک کام کا اضافہ کر دیا یعنی کام کام کام اور کام۔اب آپ نوٹ کریں اس میں ایک کام کا اضافہ ہو گیا ہے۔یہی طریقہ ان کا کام کرنے کا ہے۔مگر مقطع میں سخن گسترانہ بات آ پڑی کہ لانگ مارچ کا شور اور جڑواں شہروں میں احتجاج کے پیش نظر اقبال ڈے کی چھٹی کا اعلان کر دیا۔یوں قوم کو نئے نعرے اور پیغام کی بجائے قائد کے کام کام اور کام پر دوبارہ گزارہ کرنا پڑا۔ویسے پچیس مئی کو جب یہاں سے لانگ مارچ کا آغاز ہونا تھا اقبال کے گھر کی جس طرح توہین کی گئی اور شیرِ پنجاب پولیس نے اپنا کام خوب انجام دیا تھا۔اس گھر کی حرمت کا خوب خیال رکھا گیا اور محض رات دو بجے کے قریب ان کے بچوں کے گھر کی دیواریں پھلانگی گئی تھیں۔ بھارت میں بہت عرصے سے اقبالؔ کے یوم ولادت یعنی نو نومبر کو یوم ِ اردو منایا جاتا ہے۔یوں تو بھارت میں اقلیتوں کی تمام زبانوں کے لیے باقاعدہ ادارے بنے ہوئے ہیں مگر اردو کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔وہاں کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کا اردو سے عشق کچھ ڈھکا چھپا نہیں۔احمد آباد جیل میں انہیں جوش سے اردو سیکھنے کا موقع ملا۔کہا جاتا ہے کہ جوش جب چاہتے ان سے ان کی وزارت عظمٰی کے دور میں بلا تکلف ملنے چلے جاتے۔ایک آدھ دفعہ وزیر اعظم کی مصروفیت کی وجہ ملاقات نہ ہونے پر جوش ناراض بھی ہوئے۔معلوم ہوا ہے کہ اندرا گاندھی اپنے والد سے اردو اشعار کی باقاعدہ فرمائش کر کے سنا کرتی تھیں۔فراق گھورکھ پوری جواہر لال نہرو کے سیکرٹری بھی رہے۔ان کی والدہ نانی اور دادی کی مادری زبان بھی اردو تھی۔یہ ساری چیزیں انہیں اردو کے قریب لے آئیں۔یہی چیزیں ہمارے سارے خود ساختہ یا عسکری ساختہ لیڈروں سے اردو کو دور لے گئیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھارت سے ریاست بھوپال کی وارث نے قائد اعظم کو بتایا کہ وہ اپنے تخت کی طرف لوٹنے کے بجائے ہمیشہ کے لیے پاکستان آنا چاہتی ہیں۔ قائد اس پر بہت خوش ہوئے اور کہا ’آخرکار! اب ہمارے پاس مسز پنڈت کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی تو ہو گا۔‘ مسز پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن تھیں اور اس وقت اقوامِ متحدہ میں انڈیا کی نمائندگی کر رہی تھیں۔قائد کے بعد اگر کوئی اور علم پرور حکمران ہو گزرا ہو تو ہمارے علم میں نہیں۔جب علم پرور حمکران نہ ہوں تو انہیں اقبالؔ کی اہمیت اور اقبالؔ کے مقام سے کیا آگاہ ہونا ہے۔ہم نے اپنے موجودہ حکمران کو اقبالؔ کا ایک شعر سنا کر یہ پوچھتے ہوئے بھی دیکھا ہے "آپ نے سمجھا میرا شعر"۔ تو ہماری رہی سہی خوش فہمی کافور ہو گئی۔یہ ہمارے حکمران پر موقوف نہیں اب تو اقبالؔ کو باقاعدہ مذاق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس قسم کے لغو اشعار ان کے نام سے پھیلائے جاتے ہیں۔ نہیں ہے تیرے نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تم شاہین ہو پہاڑوں پر رہ نہ کلمہ یاد آتا ہے نہ دل لگتا ہے نمازوں میں اقبال کفر بنا دیا لوگوں کو دو دن کی محبت نے تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے مت کرو رفع یدین پر اتنی بحث مسلمانو نماز تو ان کی بھی ہو جاتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے ہمارے حکمران جب اقبالؔ کو اتنا ہی سمجھتے ہوں تو ہم اور ہماری جمہور جو اقبالؔ کے نام پر کر رہے ہیں تو ان کا کیا روا لگتا ہے۔اس جمہور سے اس سے زیادہ کی توقع لاحاصل ہے۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یوم اقبالؔ کا اعلان ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کا پیغام دینے کے لیے قطعاً نہیں تھا اور آپ کو یہ بھی علم ہو گیا ہو گا کہ ہم نے اقبال ڈے پر کالم کیوں نہ لکھا تھا۔