یوم دفاع پاکستان ایک بار دوبارہ زندہ ہوا ہے مگر ایک بدلے ہوئے نام کے ساتھ۔ مجھے اس تبدیلی پر اعتراض ہے جی ہاں، اعتراض ہے۔ ویسے تو میں بہت خوش ہوں کہ قوم کو اپنے عظیم لمحوں کی یاد آئی ہے۔ ایک طویل عرصہ تک ہم اس کا نام نہیں لیتے تھے۔ بہت سی مصلحتیں بتائی جاتی تھیں کہ ہم بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے اور چھ ستمبر کا مطلب تو بھارت سے جنگ ہے۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی تھی یا اس میں کوئی اور حکمت تھی، مجھے معلوم نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ 1971ء کی جنگ کے بعد ہم کیسے اپنی دفاعی صلاحیتوں کی عظمت کے گن گائیں۔ یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ شملہ معاہدے کی روح بھی یہ ہے کہ ہم اپنے شہیدوں اور غازیوں کو بھول جائیں۔ صرف انہیں ہی نہیں قوم کے جذبہ یکجہتی کو بھی نظر انداز کردیں۔ دوبارہ پہلی بار ہم نے 2005ء میں اس کا ذکر کیا تھا۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ ہم اس جنگ کی 50 ویں سالگرہ منا سکتے تھے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ بدلے ہوئے نام پر مجھے اعتراض ہے۔ یہ اعتراض ایسا نہیں کہ میں اس کے لیے لڑ مرنے پر آمادہ ہو جائوں۔ ایسے تومجھے نئے پاکستان کے لفظ پر بھی اعتراض ہے کیونکہ یہ اس وقت بولا گیا جب ملک دو لخت ہوگیا۔ ہم باقی ماندہ پاکستان کو آدھا پاکستان کہتے تھے۔ بھٹو صاحب نے ازراہ مصلحت اسے نیا پاکستان کہنا شروع کردیا تھا۔ آج بھی جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو دل میں 71ء کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔ تاہم میں اس نئے نام پر بات کر رہا تھا جو یوم دفاع پاکستان کو دیا گیا ہے۔ اسے اب یوم دفاع و شہدا کہا جارہا ہے۔ بظاہر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر ہے۔ ہوا یہ کہ جب انڈیا کے خوف سے ہم نے چھ ستمبر کو منانا چھوڑ دیا تو ہوتے ہوتے ہمیں یہ خیال آیا کہ ہم تو اپنے غازیوںاور شہیدوں کو بھولتے جا رہے ہیں۔ یہ خیال غالباً عسکری حلقوں میں آیا۔ ان دنوں ہماری فوج بڑی قربانیاں دے رہی تھی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی تھی۔ ہم تھے کہ فوج کا تذکرہ ہی نہ کرتے تھے۔ اس میں ملک کے اندر کی سیاست بھی ہوگی مگر زیادہ اثر اس سائیکی کا تھا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ مبادا انڈیا ناراض ہو جائے یا یہ کہ 71ء کے بعد، ہمیں یہ زیب نہیں دیتا۔ میں تو یہ کہتا ہوں اس پورے ذہنی الجھائو نے بہادری کی ان داستانوں کو بھی نظر انداز کردیا جو 71ء میں ہمارے جیالوں نے انجام دی تھیں۔ ہم ایٹمی قوت بھی بن گئے اور امن امن پکارتے رہے۔ ہمیں یہ مشورہ بھی دیا جاتا رہا بلکہ حکم صادر ہوا کہ ہم بھارت کے خلاف کسی جنگ کی بات نہ کریں۔ اب ہمارا محاذ جنگ مشرق کی طرف انڈیا نہیں، مغرب کی طرف افغانستان ہے۔ یوں کہیے ہم نے اپنا قبلہ بدل لیا۔ قوموں کی نفسیات سے ایسے ہی کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل کھیل میں ہم دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گئے۔ نتیجہ یہ کہ ہمیں اپنے ملک کے اندر دہشت گردی اور دہشت گردوں سے جنگ لڑنا پڑی۔ اس جنگ میں ہم نے بڑی قربانیاں دیں۔ صرف فوج ہی نے نہیں، سویلین نے بھی۔ ہمارے اندر ایک ایسی جنگ برپا ہو گئی کہ ہمیں سمجھ نہ آتا تھا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ یہی وہ دن تھے جب ہماری مسلح افواج نے سوچا ہو گا کہ کم از کم اپنے ان شہیدوں سے تو قوم کو آشنا کریں جنہوں نے دہشت گردی کی جنگ میں قربانیاں دی ہیں۔ اس میں تو بھارت کو ناراض کرنے والی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ جنگ چونکہ ہم اپنی سرحدوں کے اندر لڑرہے تھے، اس لیے اپنے ان شہیدوں کو ہم اس طرح یاد نہ کرتے تھے جس طرح سرحد پر لڑنے والے شہیدوں کو یاد کرتے ہیں۔ انہیں ہم نشان حیدر یا ستارہ جرأت وغیرہ بھی نہ دے سکتے تھے۔ ان کے تمغے الگ تھے۔ یہی وہ دن تھے جب پولیس والے بھی چونک کر اٹھے، آخر ان کے مرنے والے بھی تو شہید ہیں، ان کا تذکرہ ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح ایک طرف پولیس نے اپنے شہدا کا یوم منانا شروع کیا تو دوسری طرف فوج نے بھی اپنے شہیدوں کے لیے دن مقرر کیا۔ 30 اپریل کو یہ دن منایا جاتا ہے مگر یہ خالص ایک فوجی تقریب ہے جو اس طرح ایک قومی تقریب نہ بن پائی جس طرح چھ ستمبر ہے۔ اب جب دوبارہ چھ ستمبر منانے کا خیال آیا تو اسے یوم دفاع و شہدا کہنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نا، بھئی، نا۔ یہ یوم دفاع پاکستان ہے۔ اس میں چاہے آپ اس جنگ کا ذکر کرلیں جو ہم نے دہشت گردی کے خلاف لڑی ہے مگر ہماری اصل جنگ چھ ستمبر ہی ہے۔ وہ 17 دن ہماری تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کئے جا سکیں گے۔ شاعر نے کہا ہے کہ چھ ستمبر میری تاریخ کا زریں دن ہے، تو اس کی اصل عظمت یہی ہے۔ بعض اوقات بعض دن استعارہ بن جاتے ہیں۔ یوم مئی ہی کو لے لیجئے۔ یہ مزدوروں کا دن ہے۔ محنت کی عظمت کو اجاگر کرنے کا دن ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس دن کو بائی پاس کر کے کسی دوسرے دن مزدوروں کی یاد منائی جائے۔ اس طرح میرے وطن کا دفاع اپنی انتہائی مشکل میں چھ ستمبر 65ء کو ہی اجاگر ہوا تھا۔ اس کی دو نشانیاں تھیں۔ ایک تو یہ کہ پوری قوم ایک ہو گئی تھی۔ آج بھی جب کوئی مشکل مرحلہ آتا ہے اور قوم میں یکجہتی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو ہم پکار اٹھتے ہیں کہ 65ء کا جذبہ بیدار ہوگیا ہے جیسے کشمیر کے زلزلے کے دنوں میں کہا گیا، قوموں کا امتحان ایسے ہی لمحوں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک لمٹس ٹیسٹ ہوتا ہے۔ جب کبھی کوئی بحران آتا ہے اور قوم یک جان ہو جاتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ قوم نے قوم ہونے کا امتحان پاس کرلیا ہے۔ چنانچہ یہ وہ دن تھا جو ہماری تاریخ میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اس کی دوسری نشانی یہ ہوا کرتی ہے کہ قوم کی تخلیقی صلاحیتیں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ ان دنوں ہمارے پاس میڈیا صرف ریڈیوتھا۔ ہمارے نغمہ گروں نے جس طرح دن رات نغمے لکھے اور گائے وہ دنیا کی تاریخ کا ایک لازوال واقعہ ہے۔ دل چاہتا ہے اس زمانے کی داستانیں سنائوں کہ کس طرح ہمارے مغنی بلیک آئوٹ کے اندھیروں میں حق کی جوت جگاتے تھے۔ کس کس واقعے کس کس نے کیا کیا لکھا اور کن حالات میں لکھا۔ ہمارے ادیب ریڈیو پر آ کر کس طرح بھارتی ادیبوں کو للکارتے تھے اور ان کی غیرت کو جگاتے تھے۔ انڈیا اس محاذ پر تو بری طرح مار کھا گیا تھا۔ اس کی ممبئی انڈسٹری کسی کام نہ آئی۔ یہ سب لوگ اس جنگ میں شامل تھے۔ محاذ پر لڑنے والے شہید ہی نہیں غازی بھی ہمارے ہیرو تھے۔ جتنا بڑا ہیرو میجر عزیز بھٹی تھا، اتنا ہی بڑا ہیرو اس کے ساتھ والے مورچے پر لڑنے والا شفقت بلوچ تھا۔ ایک کو نشان حیدر ملا کہ یہ شہدا کو ملا کرتا ہے اور دوسرے کو ہلال جرأت دیا گیا کہ وہ جنگ سے غازی بن کرنکلا تھا۔ فوج کی جو عزت اس قوم کے دلوں میں ہے، وہ انہی دنوں پیدا ہوئی تھی۔ میری نسل نے اس کے عملی مظاہرے دیکھے ہیں۔بری فوج ہی نہیں، فضائیہ اور بحریہ نے بھی محیرالعقول کارنامے انجام دیئے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اس دن کی عظمت کو الگ رکھئے، اسے کسی اور دن سے گڈمڈ نہ کیجئے۔ یہ ہے تو دوسرے دنوں اور دوسرے واقعات کی عظمتیں بھی اجاگر ہوتی جائیں گی۔ جس طرح تقسیم نے اردو میں اعلیٰ ترین ادب پیدا کیا ہے، 65ء کی جنگ نے ہمارے ہاں مقبول ادب اس تواتر سے پیدا کیا کہ کئی نئے رسائل اور کئی نئے ادیب منصہ شہود پر ابھرآئے۔ ہماری زبان اس کا قرض ادا نہیں کرسکتی۔ کسی بڑے واقعے کی عظمت یہی ہوتی ہے کہ برسوں قوم کے ذہن، شعور اور تخلیقی جذبے کو ابھارتی رہتی ہے۔ 65ء کے دن وہ دن تھے جب سب فرق مٹ گئے تھے، سب نظریے، سب سیاسی جماعتیں ہم زبان تھیں، لاہور نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ایک شخص جو کمیونسٹ کہلاتا تھا، ایک جیپ پر لائوڈ سپیکر نصب کئے، اپنی نظم پڑھ کر سنا رہا ہے۔ چلو واہگے کی سرحد پر وطن پر وقت آیا ہے وطن پر کٹ کے مر جانے کا یارو وقت آیا ہے اگر آپ نے اس دن کو گڈمڈ کیا تو وہ سب جذبہ بھول جائے گا اور اگر اس کے سہارے آپ نے آج کی جنگوں کا بھی تذکرہ کیا تو یہ بھی زندہ ہو جائیں گی۔ اس دن تین شہروں پر ہلال استقلال کے پرچم لہراتے ہیں۔ لاہور، سرگودھا اور سیالکوٹ کو اس عظمت کے لیے منتخب کیا گیا۔ ان سب شہروں پر ہمارے شعرا کی بہت شہرہ آفاق نظمیں ہیں۔ یہ سب بے ساختہ تھیں۔ ایسی بھی تھیں جو ٹیلیفون پر فی البدیہہ لکھوائی گئیں۔ گانے والوں نے وہیں دھنیں بنوائیں اور دیکھتے ہی دیکھتے انہیں ہوا کی لہروں کے سپرد کردیا۔ عجیب دن تھا۔ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ 71ء کی جنگ میں بھی یادگار لمحے تھے جو ہم نے اس لیے بھلا دیئے کو ہم چھ ستمبر کو یاد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ہماری ساری داستان عزم و عزیمت اس ایک دن کے بطن سے پھوٹتی ہے۔ ہماری فوج ہماری فوج ہے تو اس لیے کہ وہ چھ ستمبر سے گزری ہے۔ آج تو شاید اس زمانے کا کوئی جرنیل بھی ہماری فوج میں نہیں ہوگا۔ شاید کیا، یقینی طور پر۔ اس لیے ہمیں اسی کے جذبے کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم انگریز کی روایات کوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تواپنی روایت ہے۔ بہت زندہ اور توانا روایت۔ ہر فوج اس پر ناز کر سکتی ہے۔ ہم اسے یوم دفاع پاکستان کے نام ہی سے منائیں تو اچھا ہے وگرنہ یہ کوئی اور دن ہوگا۔