ملک کے اکثر بڑے شہروںمیں منگل کے روز منچلے نوجوانوں نے جس طرح جشن آزادی منایا ہے اسے کسی طرح بھی قابل فخر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس دوران ہوائی فائرنگ ‘ آتش بازی‘ ون ویلنگ کی گئی جس سے درجنوں افراد زخمی اور قانون کی خلاف ورزی پر کئی گرفتار ہوئے اور خواتین سے بدتمیزی کے واقعات بھی پیش آئے۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ مستقبل میں اس عظیم مملکت کی باگ ڈور انہوں نے سنبھالنی ہے۔ انہوں نے خود کو اقبال کے شاہین ثابت کرنا ہے۔انہیں قائد کے ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کے درس کو ہر لمحہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی شور شرابے نہیں سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم نے اپنی آزادی کی حفاظت کس طرح کرنی ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر کس طرح گامزن کرنا ہے۔ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ ہم ہجوم نہیں ایک باشعور اور عظیم قوم ہیں‘ جسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ آزادی کا اظہار زندہ قوموں کی علامت ہے لیکن ہر شخص کو یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں ہماری چھڑی کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے‘ ہماری چھڑی اس کی ناک پر نہیں لگنی چاہیے‘ ہمیں ذاتی نہیں‘ قومی مفاد عزیز رکھنا ہو گا‘ اس لیے آزادی کے موقع پر سڑکوں پر ہاہا کار مچانا‘ ہوائی فائرنگ کرنا آتش بازی کرنا، خواتین سے بدتمیزی کرنا ‘ راستوں کو بند کرنا کسی طرح بھی آزادی کی تعریف میں نہیں آتا۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں ہم سب جواب دہ ہیں۔ ہم سب نے مل کر بھائی چارے ‘ اتحاد ‘ ایمان اور تنظیم کے ساتھ اپنے وطن کی آزادی کی حفاظت کرنی ہے۔ خصوصاً نوجوان اس وطن کا ہراول دستہ ہیں‘ انہیں اپنے رویے سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ایک سنجیدہ اور باوقار قوم کے باشعور شہری ہیں۔ پاکستان کا پہلا سینسنگ سیٹلائٹ پاکستان نے مقامی سطح پر تیار کردہ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ پاکستان نے 16جولائی 1990ء کو چین کے لانچنگ پیڈ سے اپنا پہلا سیٹلائٹ سسٹم بدر خلا میں بھیجا تھا۔ اس کے بعد 2001ء میں پاکستان نے بدر بی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا تب بھی لانچنگ کے لیے چین کی طرف دیکھنا پڑا۔ اس دور میں وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر عطا الرحمن نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکہ میں طلباء کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے وطائف دیے بلکہ ان کی دلچسپی سے ملکی یونیورسٹیوں میں معیار تعلیم بہتر بنانے کے لیے اقدامات کئے گئے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن کو بعد میں ہائر ایجوکیشن کی ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے ملک میں ایم فل اور ایچ ڈی فیکلٹی کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ مگر بدقسمتی سے بعد میں آنے والی جمہوری حکومتوں نے تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے لیے فنڈز فراہم کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ یہ ڈاکٹر عطاء الرحمن کی کاوشوں کا ہی ثمر ہے کہ آج پاکستان اپنا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کا اعزاز حاصل کر پایا ہے مگر یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ پاکستان نے 1990ء میں اپنا پہلا سیٹلائٹ چین کے لانچنگ پیڈ سے خلا میں بھیجا تھا جبکہ 2018ء میں بھی پاکستان کو ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ خلا میں چھوڑنے کے لیے چین کا تعاون حاصل کرنا پڑا ہے جبکہ بھارت اس حوالے سے نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ 4ٹن سیٹلائیٹس لانچ کرنے کے لیے 1.5ارب ڈالر کی خطیر رقم بھی مختص کر چکا ہے یہاں تک کہ مودی 2022ء میں چاند پر ترنگا لہرانے کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں۔بہتر ہو گا حکومت ملک میں سپیس ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے نہ صرف خصوصی اقدامات کرے بلکہ خلا میں راکٹ چھوڑنے کے لیے سیٹلائٹ لانچنگ پیڈ کے قیام کے لیے بھی وسائل مہیا کئے جائیں تاکہ وطن عزیز سائنس اور ٹیکنالوجی میں خطہ کے دیگر ممالک کے ہم پلہ ہو سکے۔