جب پاکستان کشمیری عوام کوسیاسی ،سفارتی اوراخلاقی مددجاری رکھتے ہوئے ان کے ساتھ اظہاریکجہتی کر تا ہے توبلاشبہ یہ تحریک آزادی کشمیرکے لئے آکسیجن کی طرح ہے ۔۔آج جہاں مملکت خدادادکی اپیل پرپاکستان اورپوری دنیامیں یوم یکجہتی کشمیرمنایاجارہاہے توسری نگرمیں بھارتی قابض فوج کی بربریت بدستورجاری ہے ۔کشمیری مسلمان پاکستان کے ساتھ کلمہ طیبہ کی بنیادپرقائم لازوال رشتے کو اپنے لہوسے تازگی بخشتے ہوئے ایسی قندیلیں روش کرتے ہیں کہ جن کی روشنی کشمیرکی تحریک کی سمت کاتعین ہوجاتاہے ۔ پاکستان اور کشمیر کے مابین جسم و جان کا رشتہ ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر پر وقار اور باعزت زندگی گزار سکتے ہیں ۔ تاریخ یہ باب رقم کر چکی ہے کہ اسلامیان پاکستان کا کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی محض نعروں ، قراردادوں ، تقریروں تک محدود نہیںبلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دنیا کشمیر کو بھول چکی تھی اور اقوام متحدہ بھی بات کو گول کر گیا تھالیکن جب کشمیر ی مسلمانوں نے اپنے خون جگر سے اس مسئلے کو زندہ کر دیا تو دلی نے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے ریاستی جبر و تشدد کے بدترین حربے استعمال کرنا شروع کر دئیے ۔ خانہ سوزیوں،عقوبت خانوں کے تشدد ، خواتین سے دست درازی ، چھاپوںاورگرفتاریوں کے ذریعے کشمیریوں کی نسل کشی کی مہم شروع کی گئی ۔ ایسے مشکل حالات میں پاکستان کے بہادر عوام کشمیریوں کی آوازبنے اورانہوںنے اپنے کشمیری بھائیوں کو تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کی حمایت کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور اسی نعرہ مستانہ کا نام ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ہے ۔ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد کا عنوان یہی ہے ان کا خون ایک نئی سحر کے طلوع کی بنیاد بنے گا ۔یہ تو وہ تابناک کہانی تھی جسے تاریخ نے اپنے سینے میں جگہ دے کر محفوظ بنا دیا۔ کشمیریوںکی یہ جدوجہد آئینی بھی ہے اور عالمی سطح پر محکوم عوام کے حق خودارادیت کے اصولوں کے عین مطابق بھی۔ اب تک جموںو کشمیر کے عوام کی بے مثال جدوجہد کے نتیجہ میں جہاں آج یہ مسئلہ زندہ ہے، وہیں کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ نریندرمودی اگرسمجھتا ہے کہ طاقت کے بہیمانہ استعمال اور دس لاکھ بھارتی قابض فوج کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر کے بہادر اور غیور عوام اپنی جدوجہد سے کنارا کش ہوجائیں، تو یہ اس کی خام خیال لی ہے۔طاقت وتشدد کے استعمال سے کبھی بھی کوئی ظالم کسی مظلوم قوم کو اپنی غلامی میں نہیں رکھ سکتا۔ اگر ایسا ہوتا توآج امریکہ افغانستان سے واپسی کے لئے طالبان کے ساتھ مذاکرات نہ کرتا۔ یہ عہدحال کی تازہ مثال ہے جبکہ ماضی جدید کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ویت نام ہے، جہاں امریکہ نے ویت نامیوں کو ان کے نظریہ اور جدوجہد کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ 30لاکھ ویت نامیوں نے اپنے وطن کی ناموس اور نظریات کے تحفظ اور بقا کے لئے اتنی عظیم قربانیاں دی ہیں جس کی مثال اس جدید عہد میں ملنا مشکل ہے۔ خود امریکہ کے 58ہزار فوجی ویت نام جنگ میںمارے گئے ، لیکن نتیجہ امریکہ کے حق میں نہیں نکلا بلکہ بڑے آبرو ہوکر وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ کشمیر میں آزادی کے متوالے ہر روز قربانیاںدے کر مودی کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کرنے میں مزید تاخیر ناقابل قبول ہے، پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کے حق خود ارادیت کی بھر پور حمایت کررہاہے اورآج کادن اس اخوت اسلامی پرمہرتصدیق ثبت کررہاہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیر کے عوام نے اپنی موجودہ تحریک کے ذریعہ یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ ایسے میں تحریک آزادی کشمیر کو تیز تر کرنے کیلئے کشمیر کی لیڈر شپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گہرے ایمان،دقیق تنظیم اورپیہم جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دیں۔ اب تاریکی سے نکل کر ملت کشمیر کی از سر نو شیرازہ بندی اور صف بندی پر کمر بستہ ہونا از بس ضروری بن چکا ہے ۔ آج ہی یہ طے کرنا ہو گا کہ جب صورتحال یہ ہو کہ اہل پاکستان اپنے زخم بھول کرکشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں توخود کشمیریوں پر کشمیر کی آزادی کے لئے کتنی ذمہ داری بڑھ رہی ہے ۔آزادی کی نعمت سے بہر ور ہونے کیلئے اہل کشمیر کو مزید صبر و عزیمت اور بے پناہ جہد مشقت درکار ہے اہل کشمیر کو صاف بتانا ہو گا کہ انکی راہ میں پہلے کی طرح پھر بہت سی گھاٹیاں آئیں گی اور پھر ہوش ربا حالات کا انہیں سامنا کرنا ہوگا۔ پاکستان سے کشمیر تک عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ ارباب پاکستان کو یہ اپنا عقیدہ بنا لینا چاہیے کہ سفارتی سطح پر اک سعی مسلسل اور ایک جہد بے خطر کئی عوامل میں سے ایک اہم عامل ہے کہ جسے دنیا کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے اب سامنے آئے۔ کشمیر سے پاکستان تک عوامی سطح پر تنازعہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ایک ہی دھن اور ایک ہی تڑپ موجود ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جو قومیں ارادے کی سچی اور دھن کی پکی ہوں وہ بالآخر منزل مراد پا جاتی ہیں۔ پاکستان سے کشمیر تک عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کے حوالے سے تھک نہ جائیں اور وہ کسی ایسے فریب اور دھوکے میں نہ آئیں جس طرح پہلے وہ فریب اور دھوکہ کھاتے رہے وہ اس مسئلے کے حل کیلئے برابر متحرک اور سر گرم رہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر سے پاکستان تک سب مقصد کی راہ میں دیوانہ وار آگے بڑھیں انتظار کی گھڑیاں خواہ کتنی ہی دراز ہو جائیں اور چاہیے کتنے ماہ و سال اور بیت جائیں کسی بھی طور ہمت نہ ہاری جائے۔ کشمیر اور پاکستان کے مابین باہم اعتمادکوٹھیس پہنچانے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان کے نا عاقبت اندیش حکمران جنرل مشرف نے واجپائی کے ساتھ اسلام آباد معاہدہ کیا اس معاہدے سے واجپائی کو خوش کرنے کیلئے مشرف کسی حد تک چلے گئے خیروہ روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔لیکن اعلان اسلام آباد میں اہل کشمیر کی قربانیوں اوران کے ارمانوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ زرداری در پردہ مسئلہ کشمیر کو کس طرح سرد خانے کی نذر کرنے کا منصوبہ تیار کر چکا ہے اہل کشمیر اس سے بھی بے خبر ہیں یہ بھید اور راز کی باتیں کشمیریوں کے علم میں نہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اس لئے پاکستانی حکمرانوںپریہ ذمہ داری عائد ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے با وقار بنیں اور کشمیریوں کے ساتھ متانت کا رشتہ استوار رکھیں ۔