اس بار یوم آزادی یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جا رہا ہے۔جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عید کا روز آزاد کشمیر میں گزارا۔ یہاں انہوں نے مقبوضہ کشمیر سے آئے مہاجرین اور آزاد کشمیر کی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران کئی تلخ حقائق پر کھل کر بات کی، خاص طور پر ان کی یہ بات کئی پہلو سے دنیا بھر کے مسلمانوں، پاکستانیوں اور کشمیریوں کو دعوت فکر دیتی ہے کہ ’’دنیا میں لوگوں کے مفادات ہیں۔ بھارت ایک ارب انسانوں کی مارکیٹ ہے۔اس خطے میں آپ نے طاقت کے نئے توازن کو دیکھا ہے۔ بہت سے لوگوں نے وہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ہم امہ اور اس کے مفادات کی بات کرتے ہیں مگر امہ کے محافظوں نے بھارت میں بہت سی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ وہاں ان کے مفادات ہیں‘‘۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیری عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم سکیورٹی کونسل کے رکن نہیں، ہمیں کشمیر کا سکیورٹی کونسل میں مقدمہ لڑنے کے لیے چین کی بطور وکیل ضرورت تھی اس لیے میں کشمیر گیا،‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’چین کشمیریوں کا مقدمہ لڑنے کو تیار ہے‘‘۔ وزیر خارجہ کے علاوہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ ن کے کئی رہنمائوں نے بھی عید آزاد کشمیر میں منائی۔ جہاں تک امہ کے تصور اور مسلمان ریاستوں کی جانب سے کشمیریوں کے بہتے لہو پر خاموشی کا سوال ہے تو مفادات کی جکڑ بندیوں نے مسلمان ممالک کو اس قابل نہیں رہنے دیا کہ وہ ایک دوسرے کو تباہی سے بچا سکیں۔ مشرق وسطیٰ مالیاتی طور پر مستحکم ہے مگر اس کے مالیاتی وسائل مغرب کے بنائے ہوئے مالیاتی نظام سے باہر خرچ نہیں ہو سکتے۔ بھارت اس وقت امریکہ اور مغرب کا پسندیدہ ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک بھارت میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اپنے اتحادی عرب ممالک کو بھی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ بھارتی منڈی میں سرمایہ کاری کریں۔ سعودی عرب کی سب سے بڑی آئل کمپنی آرامکو نے چند روز قبل اعلان کیا ہے کہ وہ بھارت کی بڑی کمپنی ریلائنس کے 20فیصد حصص خرید رہی ہے۔ ریلائنس خام تیل کو صاف کرنے کی دنیا میں سب سے بڑی کمپنی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سعودی ولی عہد پاکستان کے بعد بھارت تشریف لے گئے تھے۔ ان کے دورے کے موقع پر بھارت سے کئی ارب ڈالر کے سرمایہ کاری معاہدے ہوئے۔ متحدہ عرب امارات اس وقت بھارت کا اہم اتحادی بن چکا ہے۔ متحدہ عرب امارات کشمیر کو بھارت کا داخلی معاملہ قرار دے رہا ہے۔ بھارت کی کوششوں سے متحدہ عرب امارات میں ایک بہت بڑا مندر تعمیر ہو چکا ہے۔ بھارت کی افرادی قوت عرب ممالک میں پاکستان کے محنت کشوں کی نسبت بہتر ماحول اور بہتر شرائط پر کام کر رہی ہے۔ اس سب معاملے میں قصور وار فقط عرب ریاستیں نہیں بلکہ پاکستان کی سابق حکومتوں کے دور میں پاک بھارت تعلقات کے رنگ برنگے فارمولے ہیں جنہوں نے ہمارے دوست ممالک کو یہ راستہ دکھایا کہ اگر پاکستان بھارت سے ثقافتی اور تجارتی تعلقات بڑھانے کے بعد باہمی تنازعات کو طے کرنے کی امید رکھتا ہے تو انہیں بھی بھارت کی منڈی سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کی رضا مندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے اپنے دوست ممالک کے لیے ایسے پیداواری مفادات کا انتظام ہی نہیں کیا کہ وہ ہمیں اپنی ضرورت سمجھنے لگیں۔ اب بھی جب ساری دنیا ہمیں دیوالیہ کرنے پر تلی ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ہمیں قرضوں کی ادائیگی کے لیے تعاون فراہم کیا۔ ستمبر 2019ء میں وزیر اعظم عمران خان امریکہ جا رہے ہیں۔ اس دورے میں وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے معاملے پر وزیر اعظم اقوام متحدہ کو حقائق سے آگاہ کریں گے۔ اس سلسلے میں عالمی ادارے کی منظور کردہ قراردادوں میں اہل کشمیر کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ کشمیر کا مقدمہ پوری تفصیل کے ساتھ اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر ہے۔ دنیا کو یہ طے کرنا ہو گا کہ عالمی تنازعات کو طے کرنے کا معیار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا وہ چارٹر جس پر بھارت نے بھی دستخط کر رکھے ہیں یہ یقین دلاتا ہے کہ کسی تنازع کو لڑائی کی بجائے مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے۔ تنازعات کو پرامن انداز میں طے کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر مؤثر اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک معاونت کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے دوست ممالک کو بتدریج ایسے معاشی مفادات میں جکڑا ہے جن کی وجہ سے یہ بھارت کے خلاف اقدام پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔یہ صورت حال تصادم کی طرف لے جا سکتی ہے۔ ہمارے ہمسائے افغانستان سے انخلاء کے معاملے پر امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور غیر متوقع طور پر بلا نتیجہ ختم ہو گیا ہے۔ اگرچہ افغان طالبان یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کے معاملات کو کشمیر سے نہ جوڑا جائے تا ہم مذاکرات کا سہولت کار پاکستان حالات کی وجہ سے مضطرب ہو گا تو اس کا اثر خطے کے تمام معاملات پر ضرور ظاہر ہو گا۔ پاکستان کی جانب سے ایک ہفتہ قبل یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ بھارتی اقدام سے جنوبی ایشیا میں تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوششوں کو دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ تجارت، سیاسی و سفارتی تعلقات اور خطے کا امن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ کسی ایک ملک کو دیوار سے لگا کر اور ایک کروڑ 20لاکھ کشمیریوں کو ان کی مرضی کے خلاف جبراً غلام بنا کر رکھنے سے خطے اور عالمی امن کی چولیں ہل سکتی ہیں۔ کشمیر کا معاملہ تقسیم برصغیر کا نا مکمل ایجنڈہ ہے۔ چودہ اگست کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ برصغیر کے وہ مسلم اکثریت علاقے جنہیں پاکستان کا حصہ بننا تھا وہاں عالمی استعمار اور ہندو قیادت کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے مسلمان آج بھی اپنے بنیادی حقوق کے لیے ترس رہے ہیں۔ حالیہ دنوں مقبوضہ کشمیر کے بھارت نواز سیاست دانوں کے وہ بیانات جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئے کہ ان کے بزرگوں نے آزادی کے وقت پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا ساتھ دے کر تاریخی غلطی کی۔ محبوبہ مفتی اور عمر فاروق عبداللہ جیسے رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت کشمیریوں کے ساتھ وعدہ خلافی کا مرتکب ہوا ہے اور شق 370کا خاتمہ کر کے وہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رہا ہے۔ اس بار یوم آزادی ہمیں بتاتا ہے کہ دو قومی نظریہ ایک سچائی ہے جس پر شک کرنے والوں کو تاریخ اور اپنی نسلوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا۔ کشمیر دو قومی نظریہ کا حصہ ہے۔ کشمیری بھارتی بندوقوں کے سامنے کھڑے ہو کر پاکستان کا پرچم لہراتے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ آج آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستان سے محبت کا عہد کر رہے ہیں۔ آج پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اور عوام عہد کر رہے ہیں کہ وہ تقسیم برصغیر کے نامکمل ایجنڈے کو عالمی استعمار کی سازشوں کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ عالمی ضمیر کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور ان کی آہ و بکا پر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے۔ پاکستان نے درست فیصلہ کیا کہ خطے میں اپنی طاقت اور اثرورسوخ اجاگر کرنے کے ساتھ وہ ایک امن پسند ریاست کے طور پر عالمی برادری کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آگاہ کرے گا۔ کراچی میں صحت و صفائی کی صورتحال پر وزیراعظم کا نوٹس وزیراعظم عمران خان نے کراچی کی ابتر صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وفاقی حکومت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے عوام کی مشکلات دور کرنے کے لئے جامع پیکج تیار کر رہی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی سابق وفاقی حکومت اور سندھ میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے عشروں سے ملک کے اس سب سے بڑے شہر کی حالت زار کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ سندھ میں ایک جماعت کی حکومت گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے قائم ہے لیکن مجال ہے جو اس نے صحت و صفائی کے حوالے سے شہر کی ابتر صورتحال پر توجہ کرنے کی کوشش کی ہو۔ حالیہ مون سون موسم کے دوران دوبار ہونے والی بارشوں نے صوبائی حکومت کے شہر کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے کئے گئے تمام دعووں اور وعدوں کی قلعی اس طرح کھول کر رکھ دی کہ شہر میں ہر طرف گند پھیل گیا اور پورا کراچی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ اگر خیال آیا تو وفاقی حکومت کو آیا اور اس نے کراچی سے ’’کچرا صفائی مہم‘‘ کا بیڑا اٹھایا، ورنہ عوام دہائیوںسے کوڑے سے اٹے ملک کے اس بڑے شہر کی آلودہ فضا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور آئے دن صحت و صفائی کے حوالے سے حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارکان اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں جا کر صفائی مہم میں باقاعدہ حصہ لیں اور علاقے کے لوگوں سے مل کر شہر سے کچرا دور کریں تاکہ ماضی کا صاف ستھرا کراچی اپنے حسین چہرے کے ساتھ پھر سے نمودار سکے۔