یوکرین کے صدر زیلنسکی نے دنیا بھر کے طاقت ور حکمرانوںکو مددکے لیے پکارا لیکن ان کی آواز صدابہ صحراثابت ہوئی۔ مدد کوکوئی آیا نہ کسی نے آنا تھا۔عالمی برادری کا سارا زور مذمتی بیانات اور اقتصادی پابندیوں کے اعلانات پر رہا۔ روس اور اس کے حکمران ولادی میر پوٹن کو خوب برا بھلا کہاگیا لیکن عملاًروس نے یوکرین کی عسکری قوت تباہ کردی۔ لاکھوں لوگوں کو بے گھر اور بے یار ومدد گار کردیا۔یوکرین کی دھرتی جنگی جہازوں اور روسی ٹینکوں کی دھمک سے لرزاٹھی۔ اس کا جو انفراسٹرکچر گزشتہ ایک صدی کی محنت سے کھڑا ہواتھا اب راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے۔ یوکرین پر جو گزری سو گزری لیکن اس بحران میں پاکستان کی طرح کے ترقی پذیر ممالک کے لیے کئی ایک سبق پنہاں ہے۔ پہلا سبق یہ ہے کہ ملکی سالمیت اور خودمختاری برقرار رکھنے کے لیے دوسرے ملکوں یا اداروں پر انحصار نہیں کیا جاسکتا بلکہ آپ کے پاس مقامی سطح پر قابل بھروسہ فوجی طاقت ہونی چاہیے جو مخالف ممالک کو مہم جوئی سے باز رکھ سکے۔ دنیا نے تماشا دیکھنے اور تبصرے کرنے میں ہی عافیت جانی۔سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت اعلان کیا تھا کہ امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ مشرقی پاکستان بچانے آرہاہے۔ڈھاکہ ڈوب گیا لیکن ساتواں بحری بیڑا نہ پہنچا۔پاک امریکہ تعلقات کے باب میں ساتواں بحری بیڑا ایک سیاسی محاورہ بن گیا جسے لوگ طفل تسلی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد دنیا نے متعدد جنگیں دیکھیں۔ مغربی ممالک خاص کر امریکہ نے ان جنگوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مشرق وسطیٰ میں عراق، لیبیااور شام کی خون آشام جنگیں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان جنگوں میں لاکھوں لوگ جاں بحق یا بے وطن ہوئے۔عرب ممالک کی حکومتوں کے پاس اگرچہ معاشی وسائل بے بہا تھے خاص کر عراق اور لیبیا تیل کی دولت سے مالامال ممالک میں شامل ہیں لیکن قابل بھروسہ دفاعی نظام نہ ہونے کے باعث بڑی طاقتوں کے سامنے ترنوالہ ثابت ہوئے۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے پاکستان نے یہ سبق سیکھا کہ حالات خواہ کتنے بھی مشکل کیوں نہ ہوں ملکی سالمیت، سلامتی اور دفاعی ضروریات پر کوئی سمجھوتہ نہیںکرنا ۔چنانچہ پاکستان رفتہ رفتہ ایک قابل اعتماد دفاعی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے بھارتی نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی نے اعلان کیا کہ اب اس خطے کا سارا تناظر بدل گیا ہے ۔باالفاظ دیگر اب بھارتی بالادستی کو تسلیم کرلیا جانا چاہیے۔ پاکستان نے جوابی ایٹمی دھماکے کرکے دفاعی توازن بحال کیا۔ داخلی سطح پر ایک جدید میزائل سسٹم بھی تیار کیا گیا۔ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی نے پاکستان کی خوداعتمادی میں بے پناہ اضافہ کیا ۔ کہتے ہیں کہ بعض اوقات شر سے خیر برآمدہوجاتاہے۔ دنیا کے بڑے ممالک نے پاکستان کو ہتھیار فروخت کرنے سے انکار کیا۔حتیٰ کہ امریکہ نے ایف۱۶ طیاروں کی قیمت لینے کے باوجود حوالے کرنے سے انکار کیا۔فرانس سے جنگی جہاز یا سازوسامان کا حصول محال ہوگیا ۔ برطانیہ سمیت کوئی بھی ملک پاکستان کو جدید ہتھیار فروخت کرنے پرتیار نہیں ہوا۔ بیرونی دنیا سے اسلحہ خریدنے کے امکانات کم ہوئے تو پاکستان نے چین کی مدد سے مقامی سطح پر جنگی جہازوں کی تیاری کا منصوبہ شروع کیا۔ الحمداللہ!اب وہ اس قابل ہوچکا ہے کہ کئی ایک ممالک کو جنگی ہتھیار ہی نہیں بلکہ لڑاکاطیارے بھی برآمد کرتاہے۔ نوے کی دہائی میں کشمیرپر بھارت کے ساتھ کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ کارگل کی جنگ محض اتفاق تھا کہ ٹل گئی ورنہ دونوں ممالک کے درمیان عملاً جنگ کا دائرہ پھیلنا شروع ہوچکا تھا۔ نائن الیون کے بعد بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہواتو دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے ۔ جنرل پرویز مشرف کہتے ہیں کہ چار پانچ راتیں انہوںنے جاگ کر گزاریں کیونکہ انہیں اطلاع تھی کہ آج رات بھارت حملہ کردے گا۔اٹھارہ ماہ تک دونوں ممالک کی فوجیں سرحدوں پر حالت جنگ کی کیفیت میں کھڑی رہیں۔تین سال پہلے پلوامہ حملہ کے بعد دونوں ممالک میں فضائی جھڑپیں ہوئیں۔جنگ کے خطرات آسمانوں پر منڈلاتے رہے لیکن چونکہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار اور مضبوط عسکری قوت تھی لہٰذا بھارت نے مہم جوئی سے گریز کیا۔عربوں کا جو حشر اسرائیل نے کیا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ایک چھوٹے سے ملک نے محض ٹیکنالوجی اور جذبہ حب الوطنی کی بنیاد پر مصر، شام اور اردن شکست سے دی اور ان کے علاقے بھی ہتھیا لیے۔آج عرب ممالک فلسطین کی مدد سے بھی گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ پٹرول ڈالر کی ریل پیل اور اسلحہ کے باوجود وہ اسرائیل کو چیلنج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔پاکستان اپنے سے کئی گنا بڑے پڑوسی ملک کے ساتھ مختلف تنازعات میں الجھا ہواہے۔ کشمیر کے علاوہ بھی بھارت بلوچستان میں ایران اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے مداخلت کرتاہے۔ انفرسڑکچر کے بڑے بڑے منصوبوں بالخصوص چینی ورکروں پر حملوں میں ملوث باور کیا جاتاہے۔اس لیے پاکستان کو ایک مضبوط اورموثر دفاعی نظام کی جائزضرورت تھی جو اس نے کھڑا کیا۔ یہ ضرورت آج بھی برقرار ہے کیونکہ جس طرح خطے کے حالات بدل رہے ہیں اور بڑی طاقتیں دوسرے ممالک میںمداخلت کرتی ہیںحتیٰ کہ ان پر قبضہ کرنے سے بھی نہیں کتراتی ہیں،ان حالات میں پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مزید محنت کرنا ہوگی۔ جنگ کا اسلوب بھی بدل رہاہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کی حالیہ جنگ میں آذربائیجان کی فوج محض اس لیے غلبہ پاگئی کہ اس کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ خاص طور پراس نے ڈرون حملوں اور روبوٹیک ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا۔ آرمینیا کی فوج روایتی جنگ کے لیے تو تیار تھی لیکن غیر روایتی ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کی استعداد نہیں رکھتی تھی لہٰذا میدان جنگ میں نسبتاً چھوٹے ملک سے پٹ گئی۔پاکستان کو اپنی فورسز کو جدید تک ٹیکنالوجی اور تربیت سے آراستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرسکے۔